پاکستان کی افغانستان کے حوالے سے او آئی سی اجلاس کی میزبانی کی پیشکش

اپ ڈیٹ 30 نومبر 2021
شاہ محمود قریشی نے اجلاس کی میزبانی کی پیشکش کی— فائل فوٹو: اے ایف پی
شاہ محمود قریشی نے اجلاس کی میزبانی کی پیشکش کی— فائل فوٹو: اے ایف پی

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے سعودی عرب کی جانب سے افغانستان کی صورتحال پر تبادلہ خیال کے لیے اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے وزرائے خارجہ کا غیر معمولی اجلاس بلانے کا خیرمقدم کرتے ہوئے 17 دسمبر کو اسلام آباد میں اجلاس کی میزبانی کی پیشکش کی ہے۔

دفتر خارجہ کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان سعودی عرب کے اقدام کی مکمل حمایت کرتا ہے اور اس اعتماد کا اظہار کیا کہ اسلامی تعاون تنظیم کے دیگر اراکین بھی اس تجویز کی حمایت کریں گے۔

مزید پڑھیں: افغانستان کو براستہ واہگہ امداد کی فراہمی کیلئے پاکستان سے معاملات طے کررہے ہیں، بھارت

سعودی عرب کی سرکاری پریس ایجنسی کے مطابق او آئی سی اجلاس کی سربراہی کرنے والے سعودی عرب نے اسی دن غیر معمولی اجلاس طلب کیا ہے۔

سرکاری ایجنسی کے مطابق اجلاس افغانستان کی صورتحال اور فوری انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کی فراہمی کے راستے پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے بلایا گیا ہے۔

15 اگست کو طالبان کی جانب سے افغانستان کا اقتدار سنبھالے جانے کے بعد کئی دہائیوں کی جنگ سے متاثرہ ملک خشک سالی اور شدید غربت سے نبردآزما ہے اور معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی ہے جس سے مہاجرین کی پاکستان آمد کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔

دفتر خارجہ کے بیان کے مطابق شاہ محمود قریشی نے اس مشکل وقت میں افغانستان کے لوگوں کو انسانی امداد فراہم کرنے کی ضرورت پر روشنی ڈالی۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان میں امدادی کام میں تعاون پر اقوام متحدہ کا پاکستان سے اظہار تشکر

ان کا کہنا تھا کہ افغانستان اسلامی تعاون تنظیم کا ایک بانی رکن ہے، اسلامی امہ کا حصہ ہونے کے ناطے ہم افغانستان کے لوگوں کے ساتھ برادرانہ دوستی اور بھائی چارے کے بندھن میں بندھے ہوئے ہیں اور آج ماضی کی نسبت ہمارے افغان بھائیوں اور بہنوں کو ہماری زیادہ ضرورت ہے۔

جنگ زدہ ملک کی صورت حال کو بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ افغانستان کو اس وقت ایک سنگین انسانی بحران کا سامنا ہے، خواتین اور بچوں سمیت لاکھوں افغان خوراک، ادویات اور دیگر ضروری سامانِ زندگی کی قلت کی وجہ سے غیر یقینی مستقبل کا سامنا کر رہے ہیں۔

وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ موسم سرما کی آمد کے پیش نظر یہ انسانی بحران مزید شدت اختیار کر گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں افغان عوام کی انسانی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اپنی اجتماعی کوششوں کو تیز کرنا چاہیے، انہیں فوری اور پائیدار مدد فراہم کرنی چاہیے اور افغانستان کی بھلائی اور خوشحالی کے لیے ان کے ساتھ جڑ کر رہنا چاہیے۔

مزید پڑھیں: او آئی سی کا دہشت گردی سے پاک افغانستان کا مطالبہ

دفتر خارجہ کے مطابق اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کی کونسل کا پہلا غیر معمولی اجلاس جنوری 1980 میں اسلام آباد میں ہوا تھا جس میں افغانستان کی اس وقت کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔

شاہ محمود قریشی نے مزید کہا کہ اگلے مہینے ہم ایک بار پھر اسلام آباد میں جمع ہوں گے تاکہ افغان عوام کے ساتھ اپنی مستقل یکجہتی اور حمایت کا اعادہ کریں۔

وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ وہ افغانستان کو درپیش انسانی اور معاشی چیلنجوں سے نمٹنے میں مدد کے لیے ٹھوس اقدامات پر غور کرنے کے حوالے سے اجلاس کے بارے میں پراعتماد ہیں اور وہ او آئی سی کے رکن ممالک کے وزرائے خارجہ کے اسلام آباد میں استقبال کے منتظر ہیں۔

افغانستان میں انسانی بحران

امریکا کی 20سالہی جنگ کے خاتمے کے بعد طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے افغانستان کو شدید چیلنجز کا سامنا ہے۔

طالبان کی نئی حکومت کو اب ملک کی خستہ حال معیشت کو بحال کرنے کا مشکل کام درپیش ہے جو کہ بین الاقوامی امداد کی منتظر ہے کیونکہ امریکی حمایت یافتہ سابقہ حکومتوں کے دور میں قومی بجٹ کا 75 فیصد بین الاقوامی امداد پر منحصر تھا۔

افغانستان میں مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے جبکہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد ملک کا بینکنگ کا شعبہ تباہ ہو گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا، افغانستان کو امدادی پیکج دے ورنہ وہ داعش کی پناہ گاہ بن جائے گا، عمران خان

امریکا کی جانب سے ان کے بینکوں میں موجود افغانستان کے تقریباً 10 بلین ڈالر کے اثاثے منجمد اور ورلڈ بینک اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی جانب سے افغانستان کی فنڈنگ ​​تک رسائی روکے جانے کے بعد یہ بحران مزید سنگین ہو گیا ہے۔

اقوام متحدہ کے امدادی اداروں نے خبردار کیا ہے کہ افغانستان میں ایک بڑا انسانی بحران جنم لے رہا ہے اور ملک کی 3کروڑ 80لاکھ آبادی میں سے نصف سے زائد کو موسم سرما میں قحط سالی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

رواں ماہ کے اوائل میں وزیر اعظم عمران خان نے افغانستان کے لیے 5 ارب روپے کی انسانی امداد کی منظوری دی تھی جبکہ اس کے علاوہ ہندوستانی خوراک کی امداد کو پاکستان کے راستے منتقل کرنے کی اجازت دی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں