اسلام آباد: سینیئر صحافی انصار عباسی نے توہین عدالت کی کارروائی سے متعلق عدالتی حکم نامے میں ترمیم کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دے دی ہے۔

یہ حکم نامہ سابق چیف جسٹس گلگت بلتستان رانا محمد شمیم کے حلف نامے سے متعلق توہین عدالت کی کارروائی کے دوران جاری کیا گیا تھا۔

انصار عباسی نے نشان دہی کی کہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ ’ان (انصار عباسی اور عامر غوری) سے پوچھا گیا کہ کیا وہ حلف نامے کی صورت میں موجود کسی ایسے دستاویز کو رپورٹ اور شائع کریں گے جو جھوٹ پر مبنی ہو اور جس کا مقصد عدالتی کارروائی پر اثر انداز ہونا ہو۔ انہوں نے جواب دیا کہ اگر ایسا کرنا مفاد عامہ میں ہو تو وہ ایسا کریں گہ کیونکہ ان کا کردار صرف ایک ’پیغام رساں‘ کا ہے‘۔

مزید پڑھیے: توہین عدالت کیس: اسلام آباد ہائیکورٹ نے اٹارنی جنرل کو پراسیکیوٹر مقرر کردیا

اپنی درخواست میں انصار عباسی نے مؤقف اختیار کیا کہ ’درخواست گزار معزز عدالت کے سامنے مذکورہ بالا بیان نہ ہی دے سکتا تھا اور نہ ہی ایسا بیان دیا گیا‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس لیے درخواست گزار انتہائی عاجزی کے ساتھ اس معزز عدالت سے درخواست کرتا ہے کہ وہ اس درخواست میں پیش کیے گئے الفاظ کو اس کے حکم سے خارج کرنے کا حکم دے کیونکہ ایسا لگتا ہے کہ وہ کسی کلرکی غلطی یا شاید درخواست گزار کی ناقص ابلاغی صلاحیت کی وجہ سے شامل ہوئے‘۔

انصار عباسی نے اپنی درخواست میں کہا کہ توہین عدالت کی کارروائی کے آغاز سے ہی ان کا موقف واضح تھا کہ انہوں نے محض ایک ایسے شخص کے حلف نامے کی موجودگی کی اطلاع دی جو کوئی عام شخص نہیں تھا بلکہ گلگت بلتستان میں اعلیٰ ترین عدالتی عہدے پر فائز تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ انہیں ’بالکل کوئی علم نہیں تھا کہ حلف نامے میں بیان کی گئی بات جھوٹی تھی یا سچ‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ وہ حلف نامے میں بیان کردہ حقائق کی صداقت کے بارے میں نہیں بلکہ صرف اس کی موجودگی کی اطلاع دینا چاہتے تھے۔

درخواست میں کہا گیا کہ انصارعباسی نے رانا شمیم ​​سے ان کے بیان حلفی کے مندرجات کی تصدیق کی اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کا نقطہ نظر بھی حاصل کیا۔

مزید پڑھیے: اسلام آباد ہائیکورٹ سے اخبار کے مالک،صحافیوں کےخلاف توہین عدالت کا مقدمہ ختم کرنے کا مطالبہ

انصار عباسی نے مزید کہا کہ ان کی خبر نیک نیتی کے ساتھ بغیر کسی بددیانتی کے شائع کی گئی، اسی وجہ سے معقول احتیاط بھی برتی گئی اور جج کا نام یا ہائی کورٹ کا نام بھی شائع نہیں کیا گیا۔

15 نومبر2021 کو انگریزی روزنامے ’دی نیوز‘ میں شائع ہونے والی صحافی انصار عباسی کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ’گلگت بلتستان کے سابق چیف جسٹس گلگت بلتستان رانا محمد شمیم نے ایک مصدقہ حلف نامے میں کہا تھا کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے اپنے دورہ گلگت بلتستان کے دوران اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک جج کو ہدایت دی تھی کہ سال 2018ء کے انتخابات سے قبل کسی قیمت پر نواز شریف اور مریم نواز کی ضمانت پر رہائی نہیں ہونی چاہیے۔


یہ خبر 02 جنوری 2022ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں