برطانوی عدالت میں 'جلاوطن بلاگر کے قتل کی منصوبہ بندی' کی تفصیلات کا انکشاف

14 جنوری 2022
وقاص گورایا نے 2017 میں پاکستان چھوڑ دیا تھا—فائل فوٹو: ٹوئٹر
وقاص گورایا نے 2017 میں پاکستان چھوڑ دیا تھا—فائل فوٹو: ٹوئٹر

برطانیہ میں مقیم ایک پاکستانی نژاد برطانوی 31 سالہ گوہر خان کے مقدمے کی سماعت کنگسٹن-اپون-تھیمز کراؤن کورٹ میں شروع ہوئی جس میں استغاثہ نے روٹرڈیم، نیدرلینڈ میں مقیم جلاوطن بلاگر اور ایکٹوسٹ احمد وقاص گورایا کے قتل کی مبینہ سازش کی تفصیلات کا انکشاف کیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق استغاثہ نے کہا کہ بظاہر پاکستان میں مقیم افراد نے احمد وقاص گورایا کے 'قتل کے مقصد' کے لیے گوہر خان کی خدمات حاصل کی تھیں۔

اندازے کے مطابق اس کے اس عمل کے بدلے اسے ایک لاکھ پاؤنڈ کی بھاری رقم کی ادائیگی ہونی تھی، ایک ایسے وقت میں کہ جب پروسیکیوشن نے دعویٰ کیا کہ مدعا علیہ شدید قرض میں جکڑا ہوا تھا اور اس کی ادائیگی کا کوئی ذریعہ نظر نہیں آتی تھی۔

پروسیکیوشن نے جیوری کو بتایا کہ گوہر خان پیسہ کمانے کے لیے قتل کرنے اور مستقبل میں بھی مزید حملے کرنے کے لیے 'پُرجوش' تھا۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستانی نژاد برطانوی شخص پر بلاگر کے قتل کا منصوبہ بنانے کا الزام

اس میں بتایا گیا کہ کس طرح مدعا علیہ نے روٹرڈیم کا سفر کیا اور شکار کو تلاش کرنے کی کوشش کی، ایک چاقو خریدا جسے اس نے وقاص گورایا کو قتل کرنے کے لیے استعمال کرنا تھا۔

تاہم ملزم کے لیے نامعلوم وقاص گورایا اس وقت روٹرڈیم میں اپنے گھر کے پتے پر موجود نہیں تھا۔

پروسیکیوشن کے مطابق چند روز تک مبینہ شکار کو تلاش کرنے کی ناکام کوششوں کے بعد گوہرخان نے ہار مان لی اور واپس برطانیہ چلا گیا جہاں واپسی پر اسے گرفتار کر لیا گیا۔

گوہر خان کو بلاگر کی تصویر کے ساتھ ساتھ اس کا پتا مبینہ طور پر ایک مڈل مین نے بھیجا تھا، جس کی شناخت استغاثہ نے 'مڈز'، 'زیڈ' اور 'پاپا' کے نام سے کی تھی۔

استغاثہ نے کہا کہ شواہد میں مدعا علیہ کے موبائل ٹیلی فون ڈیوائسز سے بھیجے گئے اور اس پر موصول ہونے والے پیغامات، روٹرڈیم میں کیے گئے سفر اور سفر کی کوشش کے ثبوت، روٹرڈیم میں اس کی نقل و حرکت کی سی سی ٹی وی فوٹیج اور شہر میں اس کی خریداری کے ثبوت شامل ہیں۔

مزید پڑھیں: برطانیہ میں جلاوطن پاکستانیوں کی زندگیوں کو خطرہ ہے، سیکیورٹی حکام

استغاثہ نے گوہر خان اور مڈل مین کے درمیان ڈیل کا بھی تفصیل سے خاکہ پیش کیا، جس میں مجموعی طور پر ایک لاکھ پاؤنڈ کی ادائیگی ہونی تھی جس میں سے 80 ہزار پاؤنڈز مدعا علیہ اور بقیہ مڈل مین کو ملنے تھے۔

گوہر خان اور مڈل مین کے درمیان ہونے والے پیغامات کے تبادلے میں مدعا علیہ نے بلاگر کے بارے میں معلومات پوچھتے ہوئے کہا کہ کیا یہ گہرے سمندر کی مچھلی ہے، یا صرف ٹونا(مچھلی کی ایم قسم) ؟ جو یہ سمجھنے کی کوشش تھی کہ اس کا کام بڑا ہے یا چھوٹا۔

پروسیکیوشن کے مطابق مدعا علیہہ نے یہ بھی کہا کہ 'شارک مہنگی ہیں، ٹونا سستی ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر یہ بڑا ہدف ہے تو اس پر زیادہ پیسے خرچ ہوں گے جس پر مڈل مین نے یہ کہتے ہوئے جواب دیا کہ ہدف 'صرف ٹونا ہے، لیکن برطانوی ٹونا نہیں یورپی ٹونا، یعنی اس کے لیے تھوڑا سا سفر کرنا پڑے گا'۔

پیغامات کے تبادلے کے دوران گوہر خان اور مڈل مین نے کام کا حوالہ دینے کے لیے مچھلی اور ماہی گیری کے استعارے، جیسے ماہی گیری کے لوازمات کا استعمال کیا۔

گوہر خان نے یہ بھی پوچھا کہ اگر 'جہاز ڈوب جائے' یعنی اگر کام میں ناکامی ہو تو ادائیگی کا کیا ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں:'ملک میں قانون کی حکمرانی چاہتے ہیں'،لاپتہ ہونیوالے بلاگر بول پڑے

مقدمے کی سماعت کے پہلے روز اپنے ابتدائی بیان میں استغاثہ نے کہا کہ 'کوئی انہیں [وقاص گورایا] کو قتل کرنا چاہتا تھا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ن کے قتل کا مقصد ان کی سیاسی سرگرمی سے جڑا ہہو، جو افراد وقاص گورایا کی موت چاہتے تھے وہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے رقم ادا کرنے کے لیے تیار تھے، مختصراً یہ کہ یہ سب وقاص گورایا کو قتل کرنے کی سازش تھی۔

جیوری کے سامنے سوال یہ تھا کہ کیا گوہر خان اس سازش میں ملوث تھے؟

جیوری کو بتایا گیا کہ اگرچہ گوہر خان ثبوت کے طور پر تسلیم کیے گئے تمام پیغامات بھیجنے اور وصول کرنے کو تسلیم اور روٹرڈیم اور اس کے آس پاس سفر کی سی سی ٹی وی فوٹیج کو مانتا ہے لیکن اس کا کہنا ہے کہ اس کا ارادہ وقاص گورایا کو قتل کرنا کبھی نہیں تھا۔

خیال رہے کہ وقاص گورایا ایک سرگرم کارکن اور بلاگر ہیں جنہوں نے 2017 میں اسلام آباد میں اپنے اور پانچ دیگر بلاگرز کے اغوا ہونے کے بعد پاکستان چھوڑ دیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں