عالمی طاقتوں کاایران کے ساتھ مذکرات کی فوری بحالی پر زور

اپ ڈیٹ 21 جنوری 2022
فرانسیسی وزیر خارجہ ژاں یوس لی ڈرین نے خبردار کیا کہ ایران کے ساتھ مذاکرات اتنی سست روی کے ساتھ نہیں چلائے جاسکتے۔—تصویر: رائٹرز
فرانسیسی وزیر خارجہ ژاں یوس لی ڈرین نے خبردار کیا کہ ایران کے ساتھ مذاکرات اتنی سست روی کے ساتھ نہیں چلائے جاسکتے۔—تصویر: رائٹرز

برلن میں ہونے والی ملاقات کے بعد امریکی سیکریٹری اسٹیٹ انٹونی بلنکن اور یورپی اتحادیوں نے زور دیا کیا کہ ایرانی جوہری معاہدے کو بحال کرنا اب بھی ممکن ہے لیکن 'وقت نکل رہا ہے'۔

ڈان اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق انٹونی بلنکن نے صحافیوں کو بتایا کہ ایران کے ساتھ 2015 کے معاہدے کو محفوظ رکھنے کے لیے ویانا میں کام کرنے والے مذاکرات کاروں نے گزشتہ دو ہفتوں میں کچھ پیش رفت دیکھی لیکن وہ اسے معمولی نہیں سمجھ رہے۔

انٹونی بلنکن نے کہا کہ تمام ساتھیوں سے بات کرکہ میرا اندازہ ہے کہ باہمی رضامندی کی جانب لوٹنا اب بھی ممکن ہے۔

یہ بھی پڑھیں: چین کا ایران سے تعاون کے معاہدوں کے ذریعے امریکی پابندیوں کا جواب

ایک مشترکہ نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جرمن وزیر خارجہ اینالینا بیرباک نے کہا کہ معاہدے کو بچانے کے لیے مذاکرات میں فوری پیش رفت کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ حل تلاش کرنے کا راستہ بند ہوتا جارہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مذاکرات فیصلہ کن مرحلے میں ہیں، ہمیں فوری پیش رفت کی ضرورت ہے ورنہ ہم مشترکہ معاہدہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوں گے۔

یوکرین کے بحران پر بات چیت کے لیے برلن میں موجود فرانسیسی وزیر خارجہ ژاں یوس لی ڈرین نے خبردار کیا کہ ایران کے ساتھ مذاکرات اتنی سست روی کے ساتھ نہیں چلائے جاسکتے۔

انہوں نے شکوہ کیا کہ میٹنگز میں پیشرفت ادھورے پن، عدم اعتماد اور سست روی کا شکار محسوس ہوئی۔

مزید پڑھیں: امریکا جوہری معاہدے کی بحالی کیلئے ایران کے ساتھ مذاکرات کیلئے تیار

انہوں نے مزید کہا کہ اب یہ انتہائی اہم ہے کہ رفتار پکڑی جائے یا ناکامی کا خطرہ مول لیا جائے۔

انٹونی بلنکن نے اس بات پر اتفاق کیا کہ یہ مذاکرات کے لیے ایک فیصلہ کن لمحہ ہے، انہوں نے کہا کہ معاہدہ طے کرنے کے لیے وقت ختم ہو رہا ہے۔

ان کے یہ تبصرے امریکی صدر جو بائیڈن کے اس بیان کے ایک دن بعد سامنے آئے ہیں جب ایران کے ساتھ بات چیت کے بارے میں انہوں نے پیش رفت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ہمت ہارنے کا وقت نہیں ہے۔

ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان تاریخی معاہدے کی بحالی کے لیے مذاکرات گزشتہ سال شروع ہوئے تھے جس میں امریکا، فرانس، برطانیہ، روس، چین اور جرمنی شامل تھے، لیکن جون میں ایران کے انتہائی قدامت پسند صدر ابراہیم رئیسی کے منتخب ہونے کے بعد یہ مذاکرات رک گئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: امریکی پابندیاں ختم ہونے تک جوہری پروگرام میں تخفیف ممکن نہیں، ایران

جے سی پی او اے کے نام سے جانے والے معاہدے پر بات چیت نومبر میں دوبارہ شروع ہوئی۔

انٹونی بلنکن نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ معاہدے کو بچانے کے لیے صرف چند ہفتے باقی ہیں اور اگر بات چیت ختم ہو جاتی ہے تو امریکہ دوسرے آپشنز پر غور کرنے کے لیے تیار ہے۔

اس معاہدے میں ایران کو اس کا جوہری پروگرام روکنے کے لیے لگائی گئی ان پابندیوں سے ریلیف کی پیشکش کی گئی ہے جنہوں نے ایران کی معیشت کو مفلوج کر دیا ہے۔

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی 2018 میں معاہدے سے یکطرفہ دستبرداری نے ایران کو اپنے وعدوں سے پیچھے ہٹنے کا موقع دیا۔

پابندیوں میں نرمی کی تصدیق کے ساتھ ساتھ ایران اس بات کی ضمانت بھی مانگ رہا ہے کہ واشنگٹن دوبارہ معاہدے سے دستبردار نہیں ہوگا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں