جولائی سے دسمبر تک کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 9 ارب 9 کروڑ ڈالر تک جا پہنچا

اپ ڈیٹ 23 جنوری 2022
جولائی تا دسمبر کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑی حد تک بڑھتے ہوئے درآمدی بل کی وجہ سے بڑھا —فائل فوٹو: رائٹرز
جولائی تا دسمبر کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑی حد تک بڑھتے ہوئے درآمدی بل کی وجہ سے بڑھا —فائل فوٹو: رائٹرز

ملک کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ رواں مالی سال کی پہلی ششماہی میں 9 ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا، جو کہ مجموعی ملکی پیداوار کا 5.7 فیصد بنتا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسٹیٹ بینک آف پاکستان(ایس بی پی) کے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ، جو اشیا، خدمات اور سرمایہ کاری کے ملک میں آنے جانے کی پیمائش کرتا ہے، موجودہ مالی سال کے لیے حکومت کے جی ڈی پی کے 4 فیصد کے نظرثانی شدہ ہدف سے کافی زیادہ ہے۔

اسٹیٹ بینک نے کہا کہ 9 ارب 9 کروڑ ڈالر کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 'جاری معاشی بحالی کے درمیان تجارتی جھٹکے کی وجہ سے ہوا'۔

یہ بھی پڑھیں:رواں مالی سال کے 5 ماہ میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 7 ارب ڈالر تک جاپہنچا

کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ گزشتہ برس نومبر میں ایک ارب 89 کروڑ ڈالر جبکہ دسمبر میںایک ارب 93 کروڑ ڈالر تھا۔

جولائی تا دسمبر موجودہ خسارہ ایک سال پہلے ایک ارب 24 کروڑ 70 لاکھ ڈالر (جی ڈی پی کا 0.9 فیصد) کے سرپلس کے بالکل برعکس ہے۔

تاہم مالی سال 21-2020 کے اختتام تک وہ چھ ماہ کا سرپلس بھی ایک ارب 91 کروڑ 60 لاکھ ڈالر یا جی ڈی پی کے 0.6 فیصد کے برابر خسارہ بن گیا تھا۔

جولائی تا دسمبر کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑی حد تک بڑھتے ہوئے درآمدی بل کی وجہ سے بڑھا جو اسی مدت کے دوران 53 فیصد بڑھ کر 41 ارب 66 کروڑ ڈالر تک پہنچ گیا۔

مزید پڑھیں:معیشت کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے دباؤ سے نکل سکتی ہے، گورنر اسٹیٹ بینک

یہ اوسطاً 6 ارب 90 کروڑ ڈالر فی ماہ تجارتی خسارہ ہے جو ایک سال پہلے کی مدت میں 4 ارب 49 کروڑ 70 لاکھ ڈالر تھا۔

اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ رواں مالی سال کی دوسری سہ ماہی (اکتوبر تا دسمبر) میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اس سے پہلے والی سہ ماہی کے مقابلے بہت زیادہ تھا، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت زرمبادلہ کے ذخائر کو کم از کم تین ماہ کے درآمدی بل کے برابر رکھنا چاہتی ہے.

رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 3 ارب 56 کروڑ ڈالر تھا جو دوسری سہ ماہی میں 5 ارب 57 کروڑ ڈالر تک پہنچ گیا۔

حکومت اور اسٹیٹ بینک نے درآمدی بل کو کم کرنے کے لیے کئی اقدامات کیے لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

یہ بھی پڑھیں:رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ سالانہ ہدف سے متجاوز

تجارت اور صنعت کے ساتھ ساتھ حکومت کا یہ بھی ماننا ہے کہ اعلیٰ درآمدی بل ملک میں اقتصادی سرگرمیاں خاص طور پر برآمدات کے شعبے کو ظاہر کرتا ہے۔

تاہم چھ ماہ کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ 41 ارب 66 کروڑ ڈالر کی درآمدات کے مقابلے میں اشیا اور خدمات کی برآمدات 18 ارب 65 کروڑ ڈالر ہیں۔

جس کے نتیجے میں تجارتی خسارہ تقریباً دگنا ہو کر 23 ارب ڈالر ہو گیا جو ایک سال پہلے کی اسی مدت میں 12 ارب 33 کروڑ ڈالر تھا۔

گزشتہ دو مالی سال (یعنی 20-2019 اور21-2020) کے دوران کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بالترتیب جی ڈی پی کے 17 فیصد اور 0.6 فیصد کے برابر رہا۔

مزید پڑھیں:رواں مالی سال کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھ جائے گا، سابق معاون خصوصی

بیرونی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے زیادہ قرضے لینے کے ساتھ ایسا لگتا ہے کہ ملک قرضوں کے جال کی جانب بڑھ رہا ہے کیونکہ بڑھتی ہوئی درآمدات کے برابر برآمدات بڑھانے میں ناکام رہا۔

حکومت بڑھتے ہوئے درآمدی بل کو مشینری کی اعلیٰ درآمدات سے جوڑتی ہے، جو معیشت میں ترقی کی علامت ہے۔

تاہم، تجزیہ کاروں اور محققین کا خیال ہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ متوقع اقتصادی ترقی سے کہیں زیادہ بڑے مسائل پیدا کر سکتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں