مجھے مسلمان ہونے کی وجہ سے وزارت سے ہٹایا گیا، سابق برطانوی وزیر

24 جنوری 2022
نصرت غنی کو 2020 میں وزیر ٹرانسپورٹ کے عہدے سے برطرف کر دیا گیا تھا— فوٹو: رائٹرز
نصرت غنی کو 2020 میں وزیر ٹرانسپورٹ کے عہدے سے برطرف کر دیا گیا تھا— فوٹو: رائٹرز

سابق برطانوی وزیر نصرت غنی نے دعویٰ کیا ہے کہ انہیں مسلمان ہونے کی وجہ ان کی وزارت سے محروم کیا گیا۔

خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق 49 سالہ نصرت غنی کو 2020 میں وزیر ٹرانسپورٹ کے عہدے سے برطرف کر دیا گیا تھا اور انہوں نے سنڈے ٹائمز کو بتایا کہ ایک پارٹی ترجمان نے انہیں بتایا تھا کہ ڈاؤننگ اسٹریٹ میں ہونے والے ایک اجلاس میں ان کے مسلمان ہونے کو ایک مسئلے کے طور پر اٹھایا گیا۔

مزید پڑھیں: برطانوی وزیراعظم نے مسلمان با پردہ خواتین سے متعلق بیان پر معافی مانگ لی

انہوں نے دعویٰ کیا کہ انہیں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ مسلم خاتون وزیر کی وجہ سے ان کے ساتھی عدم اطمینان محسوس کرتے ہیں۔

سابق کنزرویٹو برطانوی وزیر کے اس دعوے پر اتوار کو برطانوی وزیر ندیم زاہاوی نے تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

ترجمان مارک اسپینسر کو ان الزامات کا محور تصور کیا جا رہا ہے لیکن انہوں نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے ٹوئٹر پر لکھا کہ یہ الزامات سراسر جھوٹے اور میں انہیں ہتک آمیز سمجھتا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ میں نے کبھی بھی وہ الفاظ استعمال نہیں کیے جو مجھ سے منسوب کیے گئے ہیں، یہ مایوس کن ہے کہ جب یہ مسئلہ پہلے اٹھایا گیا تو نصرت غنی نے اس معاملے کو باقاعدہ تحقیقات کے لیے کنزرویٹو پارٹی کو بھیجنے سے انکار کر دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستانی نژاد خاتون برطانیہ کی پہلی مسلمان وزیر بن گئیں

وزیراعظم بورس جانسن کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا کہ وزیر اعظم اس وقت ان دعوؤں سے واقف تھے اور انہوں نے نصرت کو باضابطہ شکایت کرنے کے لیے مدعو کیا تھا۔

ڈاؤننگ اسٹریٹ کے ایک ترجمان نے کہا کہ ان انتہائی سنگین دعوؤں سے آگاہ کیے جانے کے بعد وزیر اعظم نے نصرت غنی سے اس حوالے سے بات چیت کی تھی۔

ترجمان نے بتایا کہ اس کے بعد وزیراعظم نے انہیں خط لکھ کر شدید تشویش کا اظہار کیا تھا اور نصرت کو باضابطہ شکایت کے اندراج کے لیے کارروائی شروع کرنے کی دعوت دی تھی لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا حالانکہ کنزرویٹو پارٹی کسی بھی قسم کے تعصب یا امتیاز سلوک کو برداشت نہیں کرتی۔

نصرت غنی نے اخبار کو بتایا تھا کہ میں انتہائی تذلیل کے ساتھ ساتھ خود کو بے اختیار محسوس کر رہی تھی، میں اپنے پارلیمانی ساتھیوں کی جانب سے اس دائرہ کار سے بےدخل کیے جانے کے خوف سے خاموش رہی تھی۔

ویکسین کے وزیر ندیم زہاوی نے تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ہماری کنزرویٹو پارٹی میں اسلامو فوبیا یا نسل پرستی کی کوئی جگہ نہیں اور نصرت غنی کو ایک دوست، ساتھی اور شاندار رکن پارلیمنٹ قرار دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے کی صحیح طریقے سے تحقیقات ہونی چاہیے اور نسل پرستی کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینکنا چاہیے۔

مزید پڑھیں: برطانیہ کے نومنتخب وزیراعظم کے آباؤ اجداد مسلمان تھے، رپورٹ

وزیر انصاف ڈومینک ریب نے اسے ایک انتہائی سنگین دعویٰ قرار دیا تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے کی تحقیقات اسی صورت میں ہو سکتی ھتی اگر نصرت غنی کوئی باضابطہ شکایت درج کراتیں۔

سابق کمشنر مساوات اور انسانی حقوق سوارن سنگھ نے دو سال قبل کنزرویٹو پارٹی میں اسلامو فوبیا کے دعوؤں کی تحقیقات کی تھیں۔

انہوں نے 2015 اور 2020 کے درمیان ریکارڈ کیے گئے 727 الگ الگ واقعات کا تجزیہ کیا اور انہیں ادارہ جاتی اسلامو فوبیا کا کوئی ثبوت نہیں ملا تھا لیکن انہوں نے سینئر ٹوری شخصیات پر تنقید کی جن میں اب وزیر اعظم بورس جانسن بھی شامل ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں