ہارٹ فیلیئر کا خطرہ ظاہر کرنے والی یہ نشانی آپ میں تو نہیں؟

24 جنوری 2022
یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی— شٹر اسٹاک فوٹو
یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی— شٹر اسٹاک فوٹو

ہارٹ فیلیئر دنیا بھر میں ہر سال لاکھوں اموات کا باعث بننے والا مرض ہے جس کے شکار افراد کو اکثر اس کا علم کافی تاخیر سے ہوتا ہے۔

مگر کیا آپ کو معلوم ہے کہ آہستگی سے چلنا بھی اس مرض میں مبتلا ہونے کے خطرے کی نشانی ہوسکتی ہے۔

ایسا دعویٰ امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آیا جس کے مطابق تیزی سے چلنے والے افراد میں ہارٹ فیلیئر کا خطرہ سست روی سے چلنے والوں کے مقابلے میں کم ہوتا ہے۔

براؤن یونیورسٹی کی اس تحقیق میں 50 سال سے زائد عمر کی 25 ہزار سے یزادہ خواتین کی صحت کا جائزہ لیا گیا جن کی جانب سے چلنے کی رفتار کو رپورٹ کیا گیا۔

تحقیق کے مطابق جن خواتین نے دعویٰ کیا کہ ان کے چلنے کی اوسط رفتار 2.3 میل فی گھنٹہ تھی، ان میں ہارٹ فیلیئر کا خطرہ سست روی سے چلنے والوں کے مقابلے میں 27 فیصد ک دریافت ہوا۔

اسی طرح 3 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی خواتین میں یہ خطرہ 34 فیصد کم ہوگیا۔

ہارٹ فیلیئر ایسا ناقابل علاج مرض ہے جس میں دل جسمانی طلب کے مطابق خون کی سپلائی فراہم کرنےسے قصر ہوتا ہے اور بالترتیب موت کا باعث بن جاتا ہے۔

مگر اس عارضے کی شدت کو طرز زندگی کی تبدیلیوں، ادویات یا سرجری سے کم کیا جاسکتا ہے۔

محققین نے بتایا کہ تیزی سے چلنے والے افراد ممکنہ طور پر جسمانی طور پر زیادہ فٹ ہوتے ہیں جبکہ دل کی شریانوں کی صحت پر بھی اس کے مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں، جس سے ہارٹ فیلیئر کا خطرہ کم ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ چلنے کی رفتار دل کی صحت کا عندیہ دیتی ہے اور نتائج سے سابقہ تحقیقی رپورٹس کی تصدیق ہوتی ہے کہ ہمارے چلنے کی رفتار بہت اہم ہوتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اکثر افراد کے لیے ورزش کو عادت بنانا مشکل ہوتا ہے تو کم وقت کے لیے تیز رفتاری سے چلنا بھی ہر ہفتے 150 منٹ کی معتدل جسمانی سرگرمیوں جتنے فوائد جسم کو پہنچا سکتی ہے۔

درحقیقت ان کا تو کہنا تھا کہ تحقیق سے ان افراد کی شناخت میں مدد مل سکے گی جن میں ہارٹ فیلیئر کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے اور اس کے لیے چلنے کی رفتار کو جانچنا ہوگا جبکہ لوگ چلنے کی رفتار کو بڑھا کر اس خطرے کو کسی حد تک کم کرسکتے ہیں۔

تحقیق کے مطابق ہر ہفتے ایک گھنٹے تک تیز چیل قدیم سے امراض کا خطرہ اتنا ہی کم کیا جاسکتا ہے جتنا ہر ہفتے 2 گھنٹے تک عام رفتار سے چہل قدمی سے ہوتا ہے۔

تیز چہل قدمی سے دل کے دیگر امراض کا خطرہ بھیکم ہوتا ہے۔

اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل آف دی امریکن گیراٹرکس سوسائٹی میں شائع ہوئے۔

اس سے قبل 2019 میں امریکا کی ڈیوک یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ درمیانی عمر میں سست روی سے چلنے والے افراد میں دماغی امراض کا خطرہ دیگر کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔

ڈیوک یونیورسٹی کی تحقیق میں درمیانی عمر کے سیکڑوں افراد کی چلنے کی رفتار کا تجزیہ کرتے ہوئے ان نتائج کا موازنہ متعدد جسمانی اور نفسیاتی پہلوﺅں کے ساتھ کیا۔

طبی ماہرین عرصے سے چلنے کی رفتار کو بزرگ افراد کی دماغی اہلیت کے فوری اور قابل اعتبار جائزے کے لیے استعمال کررہے ہیں مگر یہ اب تک معلوم نہیں تھا کہ اس سے درمیانی عمر میں دماغی صحت کے بارے میں جاننا بھی ممکن ہے۔

درحقیقت یہ اتنا واضح ہے کہ محققین نے کہا ہے کہ چلنے کے ٹیسٹ کے ذریعے ڈیمینشیا یا دماغی تنزلی کی تشخیص کرنا بھی ممکن ہے۔

جریدے جرنل آف دی امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن میں شائع تحقیق میں 45 سال کی عمر کے 904 رضاکاروں کی خدمات حاصل کی گئیں اور ان میں سست روی اور تیزرفتاری سے چلنے والوں کے 16 آئی کیو پوائنس کے فرق کو دریافت کیا گیا۔

محققین نے دریافت کیا کہ سست روی سے چلنے والے جسمانی سرگرمیوں جیسے ہاتھوں کی گرفت کی مضبوطی اور دماغی ٹیسٹوں میں ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کیا جو کہ ناقص صحت کی بھی علامت ہے۔

تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ سست روی سے چلنے والے افراد کا بڑھاپے کی جانب سفر بھی تیز ہوجاتا ہے جبکہ ان کے پھیپھڑے، دانت اور مدافعتی نظام بھی تیز چلنے والوں کے مقابلے میں کمزور ثابت ہوئے۔

تبصرے (0) بند ہیں