• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:22pm Maghrib 4:59pm
  • ISB: Asr 3:22pm Maghrib 4:59pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:22pm Maghrib 4:59pm
  • ISB: Asr 3:22pm Maghrib 4:59pm

پی ڈی ایم نے وزیراعظم کےخلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا خیال ترک کردیا

شائع January 26, 2022
سربراہ پی ڈی ایم کا کہنا تھا کہ کا کہنا تھا کہ چاہے کچھ بھی ہو مظاہرین اسلام آباد میں داخل ہوں گے—فائل فوٹو: ٹوئٹر
سربراہ پی ڈی ایم کا کہنا تھا کہ کا کہنا تھا کہ چاہے کچھ بھی ہو مظاہرین اسلام آباد میں داخل ہوں گے—فائل فوٹو: ٹوئٹر

حکومت کی جانب سے یومِ پاکستان کے موقع پر احتجاج ملتوی کرنے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے منصوبے کے مطابق مہنگائی کے خلاف لانگ مارچ کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔

تاہم پارلیمنٹ میں تحریک عدم اعتماد لانے کا اقدام یہ کہتے ہوئے ملتوی کردیا کہ اس کے لیے ابھی وقت مناسب نہیں ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اتحاد میں شامل جماعتوں کے سربراہان کے اجلاس کی صدارت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے 23 مارچ کو فوجی پریڈ کے موقع پر اور کچھ غیر ملکی معززین کی موجودگی کے باعث دارالحکومت کو سیل کرنے کے منصوبے پر تنقید کی۔

یہ بھی پڑھیں:فارن فنڈنگ کیس میں عمران خان کو نااہل کرکے پارٹی کالعدم کردی جائے، مولانا فضل الرحمٰن

ان کا کہنا تھا کہ چاہے کچھ بھی ہو مظاہرین اسلام آباد میں داخل ہوں گے۔

پی ڈی ایم اجلاس میں مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف، اپوزیشن لیڈر شہباز شریف اور پارٹی کی نائب صدر مریم نواز نے بذریعہ ویڈیو لنک شرکت کی۔

جب ان کی توجہ 23 مارچ کو فوجی پریڈ اور اسلامی تعاون تنظیم کے اجلاس کے باعث اسلام آباد میں کرفیو جیسی صورتحال نافذ کرنے کے حکومتی منصوبے کی جانب دلائی گئی تو مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ 'پی ڈی ایم اسلام آباد میں داخل ہوگی، حکومت کو پہلے ہی علم تھا کہ پی ڈی ایم اسلام آباد آنے والی ہے اس لیے ایک سازشن کے تحت یہ سفارشات کی گئیں'۔

سربراہ پی ڈی ایم نے مزید کہا کہ جہاں تک پریڈ کا معاملہ ہے وہ صبح ہوتی ہے اور ظہر کے وقت تک ختم ہوجاتی ہے جبکہ ہم ظہر کی نماز کے بعد آئیں گے اس لیے تصادم کا کوئی امکان نہیں۔

مزید پڑھیں:ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل رپورٹ معمولی نہیں قومی سانحہ ہے، شاہد خاقان

یاد رہے کہ پی ڈی ایم نے 23 مارچ کو مہنگائی کے خلاف اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کا اعلان کیا تھا جس پر وفاقی وزیر داخلہ نے ان سے درخواست کی تھی چونکہ 23 مارچ کو فوجی پریڈ اور غیر ملکی مہمان اسلام آباد آئیں گے اس لیے اپنے احتجاج کی تاریخ تبدیل کردیں۔

ساتھ ہی شیخ رشید نے انہوں نے کہا تھا کہ ممکن ہے سیکیورٹی اقدام کے تحت حکومت اسلام آباد کو اس روز سیل کردے۔ میڈیا سے گفتگو کے دوران مولانا فضل الرحمٰن اس سوال کا جواب خوبصورتی سے گول کر گئے کہ کیا پی ڈی ایم اپنا مارچ 23 مارچ کو ملک کے مختلف حصوں سے شروع کرے گی یا اس دن اسلام آباد پہنچے گیں۔

اکثریت کی حمایت کا یقین ہونے پر تحریک عدم اعتماد لائیں گے، شاہد خاقان عباسی

تاہم ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر نائب صدر شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ لانگ مارچ کے شرکا یوم پاکستان کے موقع پر 'یقیناً' اسلام آباد میں داخل ہوں گے اور شاہراہ دستور پر پارلیمنٹ ہاؤس کی عمارت کے سامنے موجود ڈی چوک پر دھرنا دیں گے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے احتجاج کو طویل دھرنے میں تبدیل کرنے کے امکان کو مسترد کیا لیکن ساتھ ہی کہا کہ ابھی تک اس کی مدت کے بارے میں فیصلہ نہیں کیا گیا۔

وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی تجویز ترک کرنے کی وجہ کے بارے میں پوچھے جانے پر رہنما مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ ایسے اقدامات کو ہمیشہ خفیہ رکھا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:پی ڈی ایم کا آئندہ سال 23مارچ کو مہنگائی مارچ کا اعلان

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ تحریک عدم اعتماد کو کامیاب بنانے کے لیے انہیں 342 رکنی قومی اسمبلی میں کم از کم 172 ارکان کی حمایت درکار ہوگی جو کہ ان کے پاس فی الحال نہیں ہے۔

شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ وہ تحریک اس وقت پیش کریں گے جب انہیں اسمبلی میں 172 ارکان کی حمایت حاصل ہونے اور اس بات کا یقین ہوجائے گا کہ 'اسٹیبلشمنٹ' حکمران اتحاد کے پیچھے نہیں ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ 'ہمیں امید ہے کہ ملک کی موجودہ صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ (حکمران اتحاد) کا ساتھ نہیں دے گی اور جب اسٹیبلشمنٹ مداخلت نہیں کرے گی تو عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوگی'۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ جب یہ تاثر تھا کہ اسٹیبلشمنٹ نے (حکومت سے) اپنی حمایت واپس لے لی ہے تو ان (حکومتی) کے ارکان کی ایک لمبی قطار تھی جو (ہم) میں شامل ہونا چاہتے تھے۔

دوسری جانب اس حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ 'تحریک عدم اعتماد جمہوری اور پارلیمانی نظام کا حصہ ہے لیکن اس کے لیے مکمل تیاری کی ضرورت ہے اور اس وقت تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہو سکتا جب تک تمام اپوزیشن جماعتیں اور پارلیمنٹ کے اندر موجود قوتیں ایک پیج پر نہ ہوں۔'

کارٹون

کارٹون : 8 دسمبر 2024
کارٹون : 7 دسمبر 2024