ہم تو یہ سمجھ رہے تھے کہ ہم نے کوئٹہ اور ملتان مقابلے کے ساتھ اس سیزن کا سب سے جاندار مقابلہ دیکھ لیا ہے لیکن درحقیقت ہم غلطی پر تھے کیونکہ ملتان کا اگلا مقابلہ تقریباً اتنا ہی شاندار دیکھنے کو ملا۔

یہ ٹکراؤ کسی اور سے نہیں، رواں سیزن کی دوسری سب سے طاقتور ٹیم اسلام آباد یونائیٹڈ سے تھا۔ اسے ’گیم آف جائنٹس‘ یعنی ’دیووں کا مقابلہ‘ کہا جا سکتا ہے، جس میں ثابت ہوا کہ ملتان والے واقعی سب کے سلطان ہیں کیونکہ انہوں نے ایک مرتبہ پھر ہدف کا کامیابی سے دفاع کیا ہے یعنی وہ کام دوسری بار کر دکھایا ہے جو اب تک کوئی ایک مرتبہ بھی نہیں کر پایا۔


ملتان کی شان ہی نرالی


آخر ملتان کی کایا پلٹی کہاں سے؟ یہ وہی ٹیم ہے نا جس نے پچھلے سیزن کا آغاز 5 میچوں میں صرف ایک کامیابی کے ساتھ کیا تھا؟ لیکن پھر ایسا انقلاب آیا کہ لگتا ہے ناکامی بھی ان سے کنّی کترا کر گزر رہی ہے۔ کون سا ایسا شعبہ تھا کہ جس میں ملتان نے اپنی دھاک نہیں بٹھائی؟ ابتدائی اور اِن فارم بلے باز جلد آؤٹ ہوئے تو مڈل آرڈر نے میدان بخوبی سنبھالا بلکہ جس کھلاڑی کی جہاں ضرورت تھی، اس نے وہاں اپنا کردار ادا کیا۔

باؤلنگ میں نازک اور مشکل ترین مراحل پر باؤلرز اور فیلڈرز نے اعصاب پر قابو رکھا اور اسلام آباد کے ہر بڑھتے ہوئے وار کو روکا اور بالآخر اسے پسپا ہونے پر مجبور کردیا۔

پچھلے سیزن کو ملا کر دیکھیں تو ملتان پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) میں اپنے آخری 11 میچوں میں سے 10 جیتا اور صرف 1 ہارا ہے۔ یہ اسلام آباد یونائیٹڈ ہی تھی، جس نے آخری بار ملتان سلطانز کو کسی میچ میں شکست دی تھی اور آج بھی وہ اس کارنامے کو دہرانے کے بہت قریب پہنچی، لیکن قسمت تو دیکھ ٹوٹی ہے جاکر کہاں کمند۔


قیمتی ترین ٹاس


سب سے پہلے اسلام آباد یونائیٹڈ نے ٹاس جیتا، وہ ٹاس جو آج کل میچ جیتنے کی ضمانت بنا ہوا ہے۔ رواں سیزن میں ابتدائی تمام 6 مقابلوں میں وہی ٹیمیں کامیاب ہوئی تھیں جنہوں نے ٹاس جیتے اور ہدف کے تعاقب کا فیصلہ کیا۔ اس لیے جب اچھالے گئے سکّے کا رُخ اسلام آباد کے حق میں پلٹا تو لگ رہا تھا کہ اس کی لاٹری نکل چکی لیکن سامنے بھی ملتان تھا جناب! اس سیزن کی واحد ٹیم جس نے اپنے ہدف کا کامیابی سے دفاع کرکے دکھایا ہے۔

اس لیے ٹاس کے ساتھ ہی اندازہ ہوگیا تھا مقابلہ ہوگا تگڑا! لمحہ بہ لمحہ بدلتا ہوا، کبھی ایک حریف کے حق میں تو کبھی دوسرے کے پلڑے میں جھکتا ہوا، جھپٹ کر پلٹتا اور پلٹ کر جھپٹتا ہوا۔ جس میں ملتان نے ثابت کیا کہ وہ دفاعی چیمپیئن کہلوانے کا حقدار بھی ہے اور ایک مرتبہ پھر چیمپیئن بننے کا حقیقی دعویدار بھی۔


ملتان آغاز لڑکھڑاہٹ سے


ویسے حالات شروع سے ملتان کے لیے سازگار نہیں تھے۔ ٹاس ہارنے کے کچھ دیر بعد کپتان محمد رضوان انتہائی بدقسمتی سے رن آؤٹ ہوئے، پھر مین اِن فارم شان مسعود کی اننگ بن کھلے ہی مرجھا گئی اور جو کمی رہ گئی تھی وہ صہیب مقصود اور رائلی روسو کی وکٹوں کے درمیان ذرا سی جھجک سے پوری ہوگئی۔ صہیب نے ایک مرتبہ پھر رن آؤٹ ہوکر ‎’سچا ملتانی‘ ہونے کا ثبوت پیش کیا ہے۔ لگ رہا تھا کہ ملتان کی اننگ پٹری سے اتر جائے گی اور اب سنبھلے والی نہیں۔

لیکن یہاں ٹم ڈیوڈ نے میچ کا نقشہ ہی بدل دیا۔ وہی ٹم ڈیوڈ کہ جن کے ناقابلِ یقین کیچ نے کوئٹہ کے خلاف بازی کو پلٹ دیا تھا، اور آج ایک مرتبہ پھر وہ اہم کھلاڑی ثابت ہوئے۔ پہلے تو ڈیوڈ اور روسو 15 اوورز تک اسکور کو 124 رنز تک لائے۔

اب صرف 5 اوورز ہی باقی تھے، اس میں بھلا کتنے رنز بن جانے تھے؟ 50؟ 60؟ بس! ملتان 170 سے 190 کے درمیان کہیں بھی پہنچتا، اور وہ اسلام آباد یونائیٹڈ کو جیتنے سے روک نہ پاتا۔


سپر سے بھی اوپر


اس لیے اننگ کو سپر سے بھی اوپر لے جانے کی ضرورت تھی۔ روسو-ڈیوڈ نے یہاں جو کیا وہ واقعی ناقابلِ یقین تھا۔ دونوں کی دھواں دار بیٹنگ کی بدولت ملتان نے آخری 5 اوورز میں 93 رنز لوٹے۔ ٹم ڈیوڈ نے صرف 29 گیندوں پر 6 چھکوں اور اتنے ہی چوکوں کی مدد سے 71 رنز بنائے۔

ذرا تصور تو کیجیے، 29 گیندوں پر 71 رنز! آؤٹ نہ ہوتے تو شاید سنچری بھی بنا جاتے۔ روسو کی شعلہ فشاں باری تو آخر تک چلی، وہ 35 گیندوں پر 67 رنز کے ساتھ ناقابلِ شکست میدان سے واپس آئے۔ آخری اوور میں انہوں نے حسن علی کو جو 3 چھکے لگائے، اور 21 رنز لوٹے، آخر میں وہی فرق ثابت ہوئے۔


اپنا فیصلہ خود پر بھاری


اب اسلام آباد کا پہلے فیلڈنگ کا فیصلہ خود ان پر بھاری پڑتا نظر آ رہا تھا۔ 218 رنز حاصل کرنے کے لیے انہیں اگلے پچھلے کئی ریکارڈز توڑنے پڑتے۔ پھر اِن فارم پال اسٹرلنگ اور ایلکس ہیلز کی وکٹیں بھی پاور پلے ہی میں ملتانیوں کے ہتھے چڑھ گئیں۔

یہاں اسلام آباد یونائیٹڈ کے کپتان شاداب خان نے خود آنے کا فیصلہ کیا، جو ایک بڑا قدم تھا اور حیران کُن بھی۔ 14 اوورز میں مزید 161 رنز کی ضرورت ہو تو کوئی دوسرا کپتان ہوتا تو شاداب پر بھروسا نہ کرتا، لیکن قیادت کیونکہ انہی کے ہاتھوں میں تھی، اس لیے وہ بے خطر کود پڑے۔


شاداب کا نیا رُوپ


پھر ہمیں شاداب کا ایک نیا رُوپ دیکھنے کو ملا، ایک طوفانی بلے باز کی صورت میں۔ انہوں نے واقعی ایک کیپٹن اننگ کھیلی اور یہ کہیں تو غلط نہیں ہوگا کہ آخر میں مقابلہ ملتان سلطانز بمقابلہ شاداب خان ہی رہ گیا تھا۔

لیکن شاداب تنہا کچھ نہیں کرسکتے تھے، انہیں دوسرے کنارے پر کسی کی ضرورت تھی لیکن کوئی رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ ایک ہی اوور میں رحمٰن اللہ اور فہیم اشرف کی چھٹی ہوئی۔ پھر اعظم خان ڈیوڈ ویلے کے ایک ناقابلِ یقین کیچ کا نشانہ بنے۔ لے دے کر آصف علی رہ گئے تھے جو پانسہ پلٹنے کی صلاحیت تو رکھتے تھے لیکن سامنے 8 اوورز میں 104 رنز کا پہاڑ کھڑا تھا۔


دن کا سب سے بڑا جوا


یہاں آصف علی کے ہوتے ہوئے رضوان نے دن کا سب سے بڑا جوا کھیلا۔ انہوں نے خوشدل شاہ کو باؤلنگ سے نہیں ہٹایا اور انہیں اگلا اوور بھی تھما دیا۔ سب کو اندازہ تھا کہ آصف علی اس اوور کا پورا پورا فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے اور انہوں نے 2 چھکوں کے ساتھ اپنے ارادے بھی ظاہر کردیے، لیکن خوشدل پوری منصوبہ بندی کے ساتھ آئے تھے اور انہیں اچھی طرح معلوم تھا کہ آصف علی اب کیا کھیلنے والے ہیں اور انہوں نے کیا کرنا ہے۔

خوشدل نے اگلی گیند ایسی ڈالی کہ وہ باہر کی طرف نکلے لیکن آصف کے اتنا قریب بھی ہو کہ وہ اس کی طرف لپکیں۔ آصف اسی جال میں پھنسے اور گیند بلے سے لگتے ہی آسمان کی طرف اٹھ گئی۔ کیچ تھامنے والا قریب کوئی نہ تھا، خوشدل خود پیچھے کی طرف دوڑے اور ایک شاندار کیچ لے کر آصف کی اننگ اور اسلام آباد کی آدھی امیدوں کا خاتمہ کردیا۔


فیصلہ کُن مرحلہ


شاداب خان اپنی قسمت کے بل بوتے پر معاملے کو آخری 3 اوورز میں 43 رنز تک لے آئے۔ یہاں دو فیصلہ کُن مواقع آئے اور ملتان نے اپنی فیلڈنگ کے ذریعے ان کا پورا پورا فائدہ اٹھایا۔ پہلے متبادل فیلڈر عامر عظمت کا خوبصورت کیچ اور پھر لانگ آن سے ٹم ڈیوڈ کے کمال تھرو پر ایک رن آؤٹ نے اسلام آباد کو لبِ گور تک پہنچا دیا۔


اہم ترین اوور


یہ بات تو ہم کئی بار کہہ چکے ہیں کہ ٹی20 کرکٹ میں سب سے اہم اوور 19واں ہوتا ہے۔ یہ فیصلہ کرتا ہے کہ مقابلہ کس کے حق میں ہے اور آخری اوور میں دباؤ کس پر ہوگا۔ رضوان نے یہ اوور رومان رئیس کو تھمایا جنہوں نے پہلی گیند پر چھکا اور دوسری پر چوکا کھایا۔

یہاں سارا کھیل اعصاب کا تھا، 8 وکٹیں گرنے کے بعد شاداب اتاؤلے ہو رہے تھے لیکن رومان نے پٹنے کے بعد بھی حواس پر قابو رکھا۔ 10 گیندوں پر 24 درکار تھے اور رومان کی منصوبہ بندی نے شاداب سے وہ غلطی کروا دی جو انہیں نہیں کرنی چاہیے تھی۔ ایک اٹھتی ہوئی اور باہر کو جاتی گیند کو لیگ سائیڈ پر کھیلنے کی کوشش کی اور کیچ آؤٹ ہوگئے! 42 گیندوں پر 91 رنز کی اننگ کے ساتھ ہی مقابلہ بھی ختم ہوگیا!


ملتان کے ہیرو، ایک نہیں کئی


ملتان کے لیے اس میچ کے ایک نہیں بلکہ کئی ہیرو تھے۔ بیٹنگ میں دیکھیں تو ٹم ڈیوڈ اور رائلی روسو نے تب اپنا کام کر دکھایا جب رضوان اور شان ناکام ہوگئے تھے۔ باؤلنگ میں حیران کُن طور پر خوشدل شاہ اور ڈیوڈ ویلے چلے۔ خوشدل نے 4 اور ویلے نے 3 وکٹیں لیں اور ان دونوں نے 2 بہت ہی عمدہ کیچ بھی لیے۔ بلاشبہ شاداب نے اپنی زندگی کی بہترین اننگ کھیلی، لیکن انہیں اس بات کا غم رہے گا کہ وہ اسے فاتحانہ اننگ نہیں بنا سکے۔


روک سکو تو روک لو!


اسلام آباد ہمیشہ ’دماغ سے‘ سوچتا اور آگے بڑھتا ہے لیکن اس مرتبہ ملتان کے تھنک ٹینک کے سامنے اس کی نہیں چل پائی۔ آگے دیکھتے ہیں کہ اسلام آباد کا دماغ کیا سوچتا اور کرتا ہے، لیکن فی الحال تو ملتان کہہ رہا ہے ’روک سکو تو روک لو!‘ ۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں