'صحافی' کی تعریف میں فوٹوگرافر، کیمرا مین بھی شامل ہیں، اسلام آباد ہائیکورٹ

اپ ڈیٹ 09 فروری 2022
عدالت نے کہا کہ وزارت انسانی حقوق نے آئین کی دفعات پر عملدرآمد کی یقین دہانی کرائی ہے—فائل فوٹو: اسلام آباد ہائی کورٹ ویب سائٹ
عدالت نے کہا کہ وزارت انسانی حقوق نے آئین کی دفعات پر عملدرآمد کی یقین دہانی کرائی ہے—فائل فوٹو: اسلام آباد ہائی کورٹ ویب سائٹ

اسلام آباد ہائی کورٹ نے فوٹو گرافر کیمرا مین کو 'صحافی' کی تعریف میں شامل قرار دیتے ہوئے ریمارکس دیے ہیں کہ ایک تصویر اور وڈیو سے زیادہ مؤثر کوئی تقریر نہیں ہو سکتی۔

ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے 'صحافی' کی تعریف اور پروٹیکشن آف جرنلسٹ اینڈ میڈیا پروفیشنلز ایکٹ 2021 کی شق نمبر 6 کے خلاف پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کی دائر درخواست پر سماعت کی۔

سماعت میں جرنلسٹ ڈیفنس کمیٹی کی جانب سے سینئر وکلا آفتاب عالم، عمر اعجاز گیلانی اور طارق سمور کے علاوہ سابق صدر پی ایف یو جے افضل بٹ و دیگر صحافی رہنما عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔

یہ بھی پڑھیں:پی ایف یو جے نے صحافیوں کے تحفظ کا قانون عدالت میں چیلنج کردیا

عدالت نے قرار دیا کہ بادی النظر میں پروٹیکشن آف جرنلسٹس ایکٹ کی دفعہ 6 کی شق 3 آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے، وزارت انسانی حقوق عدالت کو مطمئن کرے گی کہ یہ آرٹیکل 19 اور آرٹیکل 19 اے سے متصادم نہیں۔

عدالت نے کہا کہ جو چیز غیر ضروری ہے اس کو آپ ہٹا بھی سکتے ہیں ضروری نہیں کورٹ اس میں مداخلت کرے، ساتھ ہی ہدایت کی کہ درخواست گزار اور اٹارنی جنرل کے ساتھ بیٹھ کر آرٹیکل 19 اور 19 اے کے تناظر میں اس معاملے کو دیکھیں۔

حکم نامے میں کہا گیا کہ بادی النظر میں درخواست گزار کے جرنلسٹ کی تعریف سے متعلق خدشات درست نہیں، عدالت پر ظاہر ہوا ہے کہ فوٹو جرنلسٹس بھی جرنلسٹس کی تعریف میں آتے ہیں۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ قانون اس بارے میں مکمل طور پر واضح ہے کہ کون صحافی ہے، کیمرا مین اور فوٹو گرافر کا کام رپورٹر سے بھی اہم ہے، ایک تصویر اور وڈیو سے زیادہ مؤثر کوئی تقریر نہیں ہو سکتی۔

مزید پڑھیں:صحافیوں کے تحفظ کا بل، نیب ترمیمی آرڈیننس سینیٹ سے بھی منظور، اپوزیشن کا احتجاج

عدالت نے کہا کہ معلومات کے حق کی آزادی اور آزادی اظہار رائے صرف میڈیا کا مسئلہ نہیں، جب تک تنقید نہیں ہوگی احتساب نہیں ہو سکتا، عوامی عہدہ رکھنے والے کا بہترین احتساب معلومات تک رسائی اور تنقید ہے۔

عدالت کا کہنا تھا کہ جس طرح عدلیہ صرف سپریم جوڈیشل کونسل کو جوابدہ ہے اسی طرح خبر دینے والے کو بھی کام کے دوران پولیس کا خوف نہیں ہونا چاہیے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ قوانین کے غلط استعمال کے حوالے سے پی ایف یو جے کا شکوہ بے جا نہیں ہے، اس عدالت نے حکم دے رکھا ہے کہ ریاست اپنے عمل سے ثابت کرے کہ آزادی اظہار رائے پر کوئی قدغن نہیں۔

عدالت نے کہا کہ جنرنلسٹس پروٹیکشن ایکٹ کی دفعہ 6 میں لکھے الفاظ سے صحافیوں کے خلاف مقدمے کا لائسنس مل جائے گا، پھر تو صحافی کوئی خبر نہیں دے سکیں گے، پاکستان میں مقدمہ درج ہونے سے بھی بہت کچھ ہو جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:قومی اسمبلی سے نیب آرڈیننس، صحافیوں کے تحفظ کا بل منظور

عدالت نے کہا کہ اس میں شک نہیں کہ بل سے صحافیوں کو تحفظ حاصل ہوگا لیکن متعلقہ سیکشن کی زبان میں شدید ابہام ہے، شق نمبر 6 میں صحافیوں کو خبر دے کر پولیس کارروائی کی دھمکی محسوس ہو رہی ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے قرار دیا کہ بادی النظر میں فوٹو گرافر، کیمرا مین، پروڈیوسر، ایڈیٹرز صحافی کی تعریف میں شامل ہیں، عدالت کو یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ بل میں ترامیم لائی جا رہی ہیں۔

عدالت نے کہا کہ وزارت انسانی حقوق کے حکام نے یقین دہانی کروائی ہے کہ آئین کی دفعہ 19 اور 19-اے پر مکمل عمل کیا جائے گا، عدالت کو بادی النظر میں بل کی شق 6 بنیادی حقوق کے خلاف نظر آ رہی ہے۔

عدالت نے وزارت انسانی حقوق سے ایک ماہ میں کمنٹس طلب کرلیے اور کہا کہ وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری کے کام کو سراہتے ہیں لیکن صحافیوں پر قابل دست اندازی پولیس قوانین کا اطلاق کیسے ہو سکتا ہے؟

مزید پڑھیں:وفاقی کابینہ نے صحافیوں کے تحفظ، جبری گمشدگیوں سے متعلق بلوں کی منظوری دے دی

چیف جسٹس ہائی کورٹ نے کہا کہ پہلے ہی پیکا ایکٹ آزادی اظہار رائے کے خلاف استعمال ہو رہا ہے، درخواست میں بنیادی خدشہ گڈ فیتھ میں صحافیوں کے خلاف کارروائی سے متعلق ہے، دفعہ 6 کی شق 3 میں صحافیوں کے لیے ایک دھمکی کی نشاندہی کی گئی ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالت کو بتایا گیا ہے کہ پرائیویٹ ممبر بل میں کچھ ترامیم تجویز کی گئیں ہیں، وزارت انسانی حقوق کے نمائندہ نے کہا ہے کہ درخواست گزار کے خدشات کو دیکھ کر اس کا حل نکالے گی اور اگر ضرورت پڑی تو پارلیمنٹ میں ترمیم تجویز کی جائے گی۔

عدالت نے وزارت اطلاعات اور وزارت انسانی حقوق کو نوٹس کا جواب جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت ایک ماہ کے لیے ملتوی کردی۔

درخواست کا پس منظر

خیال رہے کہ 23 جنوری کو پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ نے 'صحافی' کی تعریف اور پروٹیکشن آف جرنلسٹ اینڈ میڈیا پروفیشنلز ایکٹ 2021 کی شق نمبر 6 کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔

پٹیشن میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ مذکورہ ایکٹ کا سیکشن 6 نہ تو پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ میڈیا پروفیشنلز ایکٹ 2021 کی تمہید سے اور نہ ہی پاکستان کے آئین سے مطابقت رکھتا ہے۔

ٹیشن کے مطابق یہ شق آئینی عدالت کی جانب سے آئینی حق اور آزادی پر پابندیاں نافذ کرنے کے طے کردہ عام اصولوں، خاص کر آرٹیکل 19 اور 19 اے کے تحت ضمانت دیے گئے آزادی اظہار رائے اور معلومات کے حق کو پامال کرتی ہے۔

پٹیشن میں قانون میں فوٹو جرنلسٹ اور کیمرا پرسنز کو صحافیوں کی تعریف سے نکالنے پر سوال اٹھاتے ہوئے پی ایف یو جے نے مؤقف اپنایا کہ فوٹو گرافرز اور کیمرا پرسنز کو صحافیوں کی تعریف سے نکالنا معلومات فراہم کرنے اور شہریوں کو آگاہی دینے میں فوٹوجرنلزم کے کام اور کردار کو کم کرنے کے مترادف ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں