نارووال اسپورٹس کمپلیکس ریفرنس: احسن اقبال کی بریت کی درخواست مسترد

اپ ڈیٹ 23 فروری 2022
اسلام آباد کی احتساب عدالت نے احسن اقبال کی بریت کی درخواست پر محفوظ شدہ فیصلہ سنا دیا— فائل فوٹو: اے پی پی
اسلام آباد کی احتساب عدالت نے احسن اقبال کی بریت کی درخواست پر محفوظ شدہ فیصلہ سنا دیا— فائل فوٹو: اے پی پی

احتساب عدالت نے نارووال اسپورٹس سٹی کمپلیکس ریفرنس میں احسن اقبال کی بریت کی درخواست مسترد کردی۔

بدھ کو اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج سید اصغر علی نے احسن اقبال کی بریت کی درخواست پر محفوظ شدہ فیصلہ سنا دیا۔

مزید پڑھیں: نارووال اسپورٹس سٹی کیس: احسن اقبال و دیگر ملزمان پر فرد جرم عائد

عدالت نے نارووال اسپورٹس سٹی کمپلیکس ریفرنس میں احسن اقبال کی بریت کی درخواست مسترد کر دی۔

احسن اقبال کی جانب سے بریت کے لیے درخواست دائر کی تھی جس پر دلائل کے بعد فیصلہ محفوظ کیا گیا تھا۔

اس موقع پر مسلم لیگ (ن) کے رہنما احسن اقبال نے عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عدالت میں درخواست دائر کی ہے کہ مقدمے سے بری کیا جائے، پراسیکوشن اس مقدمے میں کوئی ثبوت مہیا نہیں کرسکی کہ منصوبے میں کرپشن ہوئی۔

ان کا کہنا تھا کہ ان مقدمات کے ذریعے حکومت صرف ہماری کردار کشی کر رہی ہے، ہر ہفتے ہماری پیشی لگتی ہے، غیر ضروری کام میں پھنسانا حکومت کی حکمت عملی ہے۔

انہوں نے کہا کہ میری وزارت میں ترقیاتی کاموں پر 32 ارب روپے خرچ ہوئے، اب یہ ساری حکومت مل کر میرے اوپر 32 روپے کی کرپشن ثابت کر دے۔

یہ بھی پڑھیں: مسلم لیگ (ن) کے رہنما احسن اقبال کے خلاف نیب ریفرنس دائر

احسن اقبال نے کہا کہ صادق اور امین کہنے والے کی فارن فنڈنگ کیس میں کروڑوں روپے کی کرپشن سامنے آچکی ہے، جس شخص نے بیرون ملک سے ملنے والے تحائف میں بھی غبن کیا وہ آخر ایماندا کیسے ہو گیا؟

انہوں نے سوال کیا کہ عمران خان کا اِنکم ٹیکس ایک کروڑ روپے کیسے ہو گیا، اِنکم ٹیکس بڑھنے کا مطلب آپ کی آمدن میں اضافہ ہوا ہے، آپ تو حضرت عمر کی چادروں والی مثال دیتے تھے لیکن آپ سے کرپشن پر کوئی چیز پوچھی جائے تو ان کو جیل میں ڈال دیتے ہیں۔

پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا) ترمیمی آرڈیننس پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پیکا کو کالا قانون کہنے والوں نے اس قانون کو کالا ترین کر دیا ہے اور یہ صحافیوں اور سیاسی کارکنوں کو ایف آئی اے کے ذریعے اٹھوا کر جابر ریاست بنانا چاہتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ وزرا کو بلدیاتی الیکشن میں جھونکنے کے لیے آرڈیننس لے آئے ہیں، کیا اس آرڈیننس پر اپوزیشن اور الیکشن کمیشن سے کوئی مشاورت کی گئی؟

مزید پڑھیں: نارووال اسپورٹس سٹی کیس میں احسن اقبال اب تک معصوم ہیں، اسلام آباد ہائیکورٹ

مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے مزید کہا کہ پاکستان کے قانون کو پی ٹی آئی کا آئین بنا دیا گیا ہے لیکن ہم آپ کو پاکستان کے آئین اور قانون سے کھیلنے نہیں دیں گے، اب آپ کی الٹی گنتی شروع ہو چکی ہے اور آپ کو جلد اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کا سامنا کرنا پڑے گا۔

احسن اقبال گرفتاری و نیب ریفرنس

خیال رہے کہ نارووال اسپورٹس سٹی اسکینڈل میں نیب نے 23 دسمبر 2019 کو احسن اقبال کو گرفتار کیا گیا تھا، وہ 2 ماہ سے زائد عرصے حراست میں رہے تھے اور پھر رواں سال اسلام آباد ہائی کورٹ نے انہیں 25 فروری کو ضمانت دی تھی۔

بعد ازاں 9 ماہ بعد نومبر کے مہینے میں نیب نے نارووال اسپورٹس سٹی کمپلیکس میں احسن اقبال اور دیگر کے خلاف ریفرنس دائر کیا تھا۔

نیب ریفرنس کے مطابق احسن اقبال اور دیگر نے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا، 'غیر قانونی طور پر منصوبے کے دائرہ کار کو 3 کروڑ 47 لاکھ 50 ہزار سے 3 ارب روپے تک بڑھا دیا'، مزید یہ کہ منصوبے کا ابتدائی خیال 1999 میں احسن اقبال کی ہدایت پر ’بغیر کسی فزبلٹی اسٹڈی‘ کے پیش کیا گیا تھا۔

ریفرنس کے مطابق 1999 میں جب سینٹرل ڈیولپمنٹ ورکنگ پارٹی (سی ڈی ڈبلیو پی) کی سربراہی احسن اقبال کررہے تھے تو 3 کروڑ 47 لاکھ 50 ہزار روپے کی لاگت پر نارووال منصوبے کی ابتدائی منطوری دی گئی تھی، اسی سال ان کی پاکستان اسپورٹس بورڈ (پی ایس بی) اور نیشنل انجینیئرنگ سروس آف پاکستان کو دی جانے والی 'غیر قانونی' ہدایت پر منصوبے کی لاگت کو 9 کروڑ 75 لاکھ 20 ہزار روپے تک بڑھ گئی تھی۔

مزید پڑھیں: احسن اقبال نے وزیر اعظم کے خلاف ریفرنس کے لیے نیب میں درخواست دائر کردی

احسن اقبال نے خود منصوبے کے لیے زمین کا انتخاب کیا تھا اور مخصوص خصرہ (پلاٹ) نمبرز کو پی ایس بی کے حوالے کیا تاکہ وہ اس کا انتخاب کرے، 1999 میں پاکستان اسپورٹس بورڈ نے وزارت ترقی و منصوبہ بندی کی ہدایت پر اس منصوبے کو اس بنیاد پر ملتوی کردیا تھا کہ اس منصوبے میں معاشی ضرورت کے حوالے سے وہ وزن نہیں تھا۔

بعد ازاں 2009 میں یہ منصوبہ دوبارہ شروع کیا گیا تھا اور تب اس کی لاگت 73 کروڑ 20 لاکھ روپے منظور کی گئی تاہم 18 ویں ترمیم کے بعد 2011 میں منصوبے کو حکومت پنجاب کے حوالے کردیا گیا تھا۔

نیب کے مطابق جب احسن اقبال نے 2013 میں وزیر ترقی و منصوبہ بندی کا چارج سنبھالا تو انہوں نے غیرقانونی طور پر اپنی وزارت کے حکام کو ہدایت کی تھی کہ وہ این ایس سی منصوبے کو پی ایس ڈی پی 14-2013 میں شامل کریں، یہ منصوبہ پی ایس ڈی پی 14-2013 کے مسودے میں شامل نہیں تھا کیونکہ یہ ایک منحرف منصوبہ تھا اور حکومت پنجاب کے سالانہ ترقیاتی پروگرام 14-2013 میں بھی اسے ظاہر کیا گیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں