کووڈ کو شکست دینے والے مریضوں میں نظام تنفس کو طویل المعیاد مسائل کی وجہ دریافت

25 فروری 2022
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو

کووڈ 19 کے شکست دینے والے متعدد افراد کو طویل المعیاد بنیادوں پر نظام تنفس کے مسائل کا سامنا ہوتا ہے، مگر اب تک یہ معلوم نہیں تھا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے۔

مگر ایک نئی طبی تحقیق میں اس کا ممکنہ جواب دیا گیا ہے۔

امریکا کی مشی گن یونیورسٹی کی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ کے کچھ مریض جن کو بیماری کی سنگین شدت کا سامنا ہوتا ہے، ان کے پھیپھڑوں کے مخصوص خلیات کا سائیکل ٹوٹ جاتا ہے۔

اس کے نتیجے میں پھیپھڑوں کی مکمل صحتیابی نہیں ہوپاتی۔

محققین نے بتایا کہ وہ اسٹیم سیلز جو پھیپھڑوں کی مرمت کی کوشش کرتے ہیں وہ اس عمل کو ممل نہیں کرپاتے بلکہ ایک مخصوص مرحلے میں پھنس جاتے ہیں۔

اس تحقیق میں ان افراد پر توجہ مرکوز کی گئی تھی جن کو کووڈ 19 کی زیادہ شدت کا سامنا ہوا تھا اور آئی سی یو زیرعلاج رہے تھے بلکہ بیشتر کو وینٹی لیٹر سپورٹ کی ضرورت پڑی۔

محققین نے بتایا کہ ہم نے ان مریضوں کو 3 گروپس میں تقسیم کیا، کچھ مریضوں کا انتقال ہوگیا، کچھ کی حالت بہتر ہوگئی اور ان کے پھیپھڑے اور اس کے افعال بھی معمول پر آگئے، تیسرا گروپ ان افراد کا تھا جو بیماری کو شکست دینے میں تو کامیاب ہوئے مگر نظام تنفس کے طویل المعیاد مسائل جیسے کھانسی اور سانس لینے میں مشکلات کا سامنا کررہے ہیں۔

انہوں نے بایا کہ کووڈ 19 کے مریضوں کے پھیپھڑوں میں آنے والی خرابیاں بالکل اسی طرح کی ہیں جیسے شدید نمونیا کے کیسز میں نظر آتی ہیں جس کے نتیجے میں پھیپھڑوں کے دائمی امراض کا سامنا ہوتا ہے۔

پھیپھڑوں کے یہ زخم ایک مخصوص حصے epithelium میں ہوتے ہیں جو ایک فلٹر کا کام کرکے پھیپھڑوں کو جراثیموں اور دیگر باہری چیزوں سے بچاتا ہے۔

یہ مخصوص حصہ 2 اقسام کے خلیات پر مبنی ہوتا ہے جو پھیپھڑوں کو پھولنے اور سیال خارج کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔

چوہوں پر ہونے والی تحقیقی رپورٹس میں دریافت کیا گیا ہے کہ جب پھیپھڑوں کو کسی بیماری کا سامنا ہوتا ہے اور ان خلیات میں سے ایک قسم کو نقصان پہنچے تو دوسری قسم پھیپھڑوں کو صحتیاب ہونے میں مدد فراہم کرتی ہے۔

مگر کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے یہ خلیات کے سوئچ ہونے کا عمل ایک جگہ پھنس جاتا ہے اور پھیپھڑے صحتیاب نہیں ہوپاتے اور مسائل پیدا ہوتے ہیں۔

ابھی طبی ماہرین یہ نہیں جانتے کہ ان خلیات کو دوبارہ کیسے بنایا جاسکتا ہے یا اس رک جانے والے عمل کو کیسے دوبارہ شروع کیا جاسکتا ہے۔

محققین نے بتایا کہ اگر یہ سمجھ جائیں کہ ان خلیات کو مرمت کا عمل دوبارہ شروع کرنے کے لیے کیسے متحرک کیا جاسکتا ہے تو توقع ہے کہ کووڈ کی طویل المعیاد علامات کا سامنا کرنے والے مریضوں کی مدد بھی ہوسکے گی۔

اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے امریکن جرنل آف پیتھالوجی میں شائع ہوئے۔

تبصرے (0) بند ہیں