تاحیات نا اہلی کے خلاف درخواست واپس کرنے کا رجسٹرار کا فیصلہ چیلنج

اپ ڈیٹ 26 فروری 2022
سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس  نے ایس بی سی اے کی  پٹیشن کو29 جنوری کو نا قابل سماعت قرار دے کر واپس کر دیا تھا—فائل فوٹو:سپریم کورٹ ویب سائٹ
سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس نے ایس بی سی اے کی پٹیشن کو29 جنوری کو نا قابل سماعت قرار دے کر واپس کر دیا تھا—فائل فوٹو:سپریم کورٹ ویب سائٹ

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن (ایس سی بی اے) نے تاحیات پابندی سے متعلق درخواست رجسٹرار آفس کی جانب سے واپس کرنے کے فیصلے کو چیلنج کردیا، درخواست میں عدالت عظمیٰ سے اپنے اس سابقہ حکم پر نظرثانی کرنے کی استدعا کی گئی ہے جس میں انہوں نے آئین کے آرٹیکل 62 (1 ایف) کے تحت سیاستدانوں کو تاحیات نااہل قرار دیا تھا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس نے ایس سی بی اے کی درخواست کو 29 جنوری کو نا قابل سماعت قرار دے کر واپس کر دیا تھا، اور کہا تھا کہ سپریم کورٹ کا 5 ججوں پر مشتمل بینچ 2018 کے سمیع اللہ بلوچ کیس میں پہلے ہی اس معاملے کا فیصلہ کر چکا۔

ایس سی بی اے کی اپیل میں رجسٹرار کے فیصلے کو معطل کر کے اس کی اصل درخواست کو نمٹانے کے لیے معاملہ عدالت عظمیٰ کے سامنے رکھنے کا مطالبہ کیا گیا ہے، یہ درخواست ایس سی بی اے کے صدر محمد احسن بھون کی جانب سے ایڈووکیٹ منصور عثمان اعوان نے دائر کی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:سپریم کورٹ نے تاحیات نا اہلی کے خلاف درخواست اعتراض لگاکر واپس کردی

اگر سپریم کورٹ کی جانب سے ایس سی بی اے کی مرکزی درخواست کو قبول کرلیا جاتا ہے، تو اس کے نتیجے میں سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف اور پی ٹی آئی کے سابق رہنما جہانگیر ترین کے ساتھ بہت سے دیگر افراد کو نااہل قرار دینے کے سپریم کورٹ کے سابقہ فیصلوں کے نتائج کو متاثر کرسکتا ہے۔

نواز شریف کو 28 جولائی 2017 کو پاناما پیپرز کیس میں اور جہانگیر ترین کو 15 دسمبر 2017 کو حنیف عباسی کیس کے فیصلوں میں قانون ساز بننے سے نااہل قرار دیا گیا تھا، تاہم اس وقت ان کی نااہلی کی مدت نہیں بتائی گئی۔

ایس سی بی اے کی اپیل میں دلیل دی گئی ہے کہ موجودہ آئینی پٹیشن نہ صرف سینیٹ کے انتخابات کے لیے اہلیت سے متعلق ہے بلکہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں سمیت کسی بھی منتخب دفتر کے رکن کی اہلیت سے بھی متعلق ہے۔

اس طرح پٹیشن میں اٹھائے گئے نکات کے ذریعے عوامی اہمیت کے سوال کا اطمینان بخش جواب دیا گیا ہے اور اسے ثابت کرنے کے لیے اپیل میں 1988 کے بے نظیر بھٹو اور 1996 کے شاہدہ ظہیر عباسی کے مقدمات کا حوالہ دیا گیا ہے، تاکہ یہ واضح کیا جا سکے کہ آئین کے آرٹیکل 184(3) کی تشریح کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے ہمیشہ آزادانہ اور وسیع سوچ کی پیروی کی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:سپریم کورٹ میں تاحیات نااہلی کے خلاف درخواست دائر

اپیل میں کیسز کے حوالے اس بات کا جائزہ لینے کے لیے دیے گئے ہیں کہ درخواست میں عوامی اہمیت کا کوئی سوال اٹھایا گیا ہے یا نہیں، اور اس بات کا تعین کرنے کے لیے کہ کیا درخواست میں کوئی عوامی اہمیت کا سوال ہے، جبکہ سپریم کورٹ نے درخواست سے پیدا ہونے والے ممکنہ نتائج پر بھی غور کیا ہے۔

ایس سی بی اے کی اپیل میں بنیادی حقوق کے نفاذ کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ نے ماضی میں کہا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 17 کی خلاف ورزی غیر معمولی اصل دائرہ اختیار کو استعمال کرنے کے لیے کافی ہے، آرٹیکل 17 سیاسی جماعت بنانے کے حق کے ساتھ الیکشن لڑنے اور حکومت بنانے کے حق کو یقینی بناتا ہے۔

ایس سی بی اے نے دلیل دی ہے کہ موجودہ پٹیشن آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح سے متعلق آرٹیکل 17 کے تحت دیے گئے حقوق کی روشنی میں آئین کے آرٹیکل چار، نو اور 10 اے کے ساتھ پڑھی جاتی ہے۔

اپیل میں کہا گیا کہ آرٹیکل 62 ون ایف کا متن نااہلی کی مدت کے بارے میں خاموش ہے، کیونکہ نا اہلی کو مستقل یا دائمی قرار دینا آئین کی زبان میں بیان نہیں کیا گیا، اس لیے فیصلے کے تحت آرٹیکل 17 کے تحت ضمانت یافتہ امیدواروں کے حقوق کو غیر مناسب حد تک کم کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں:نواز شریف اور جہانگیر ترین تاحیات نااہل قرار

مزید برآں، درخواست میں موقف اپنایا گیا ہے کہ آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات یا دائمی نااہلی کسی حلقے کے ووٹر کے لیے دستیاب انتخابی آپشن کو بہت محدود کر دیتی ہے، چاہے وہ انتخاب پارلیمنٹ، صوبائی اسمبلی یا مقامی حکومت کے لیے ہو، اس آرٹیکل کے تحت تاحیات نا اہلی سے شہری، ووٹرز حق رائے دہی کے آزادانہ استعمال اور اپنی مرضی کے مطابق اپنے نمائندوں کا انتخاب کرنے سے بھی محروم ہوجاتے ہیں۔

انفرادی شکایت کے بارے میں اپیل میں استدلال کیا گیا ہے کہ ایس بی سی اے وکلا برادری کا ایک اعلیٰ ترین نمائندہ ادارہ ہے جس کی پاکستان میں فعال اور متحرک جمہوریت میں براہ راست دلچسپی ہے، مزید یہ کہ ایسوسی ایشن کے کئی ممبران ہیں جو موجودہ، سابق اور ممکنہ طور پر مستقبل میں کسی منتخب ادارے بشمول سینیٹ، قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلیاں اور مقامی حکومتیں کے نمائندے ہوسکتے ہیں۔

ایس بی سی اے کی اپیل میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ اس طرح درخواست گزار کی جانب سے طلب کیا گیا ریلیف کسی فرد کے لیے مخصوص نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق ہر اس شخص سے ہے جو آئین کے ذریعے قائم کردہ نمائندہ جمہوریت میں دلچسپی رکھتا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں