روس-یوکرین جنگ کے نتائج پر امریکا نے پاکستان کو خبردار کردیا

اپ ڈیٹ 05 مارچ 2022
منیر اکرم نے کہا کہ شہریوں کی ہلاکتیں چاہے یوکرین میں ہوں یا کشمیر اور افغانستان میں، ان کی ہمیشہ مذمت کی جانی چاہیے— فائل فوٹو: اے پی
منیر اکرم نے کہا کہ شہریوں کی ہلاکتیں چاہے یوکرین میں ہوں یا کشمیر اور افغانستان میں، ان کی ہمیشہ مذمت کی جانی چاہیے— فائل فوٹو: اے پی

امریکا نے پاکستان کو آگاہ کیا ہے کہ یوکرین میں جنگ کے علاقائی اور عالمی دونوں طرح کے نتائج سامنے آسکتے ہیں جبکہ پاکستانی دفتر خارجہ نے رواں ہفتے کے آغاز میں 23 سفرا کی جانب سے جاری کردہ بیان پر بھی اعتراض کرتے ہوئے اسے غیر سفارتی اقدام قرار دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پیش رفت کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے ڈان کو بتایا کہ ’ہم نے حکومت پاکستان کو یوکرین کے خلاف روس کی بلااشتعال جنگ کے سبب علاقائی اور عالمی سلامتی پر پڑنے والے اثرات سے آگاہ کیا ہے‘۔

تاہم اقوام متحدہ میں پاکستان کے سفیر منیر اکرم کا کہنا ہے کہ اسلام آباد نہ صرف اپنے اقدامات کے نتائج سے باخبر ہے بلکہ یوکرین میں امن کی بحالی کے لیے ’تمام تر کوششوں کی حمایت کرتا ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر پاکستان کے مؤقف کو روس کی حمایت کے اظہار کے طور پر بیان کرنا ایک برعکس تشریح ہوگی۔

مزید پڑھیں: روس یوکرین جنگ: ’یہ تنازع اور امن میں انتخاب کا وقت ہے‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم جنگ بندی اور مذاکرات کی وکالت کر رہے ہیں، اگر ہم یوکرین کی قرارداد میں شامل ہوتے تو ہمارے پاس دونوں فریقین کے ساتھ سفارت کاری کے لیے کوئی سیاسی جگہ نہیں ہوتی‘۔

رواں ہفتے کے آغاز میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک غیر پابند قرارداد منظور کی تھی جس میں یوکرین سے تمام روسی فوجیوں کے فوری انخلا کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

مذکورہ قرارداد میں جنوبی ایشیائی ممالک میں سے صرف نیپال نے قرارداد کے حق میں ووٹ دیا جبکہ پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور سری لنکا نے اس سے دور رہنے کا فیصلہ کیا۔

پاکستان، چین کو اپنے قریبی اتحادی کے طور پر دیکھتا ہے اور اس معاملے پر بظاہر چین کے روس کی حمایت کے حوالے سخت مؤقف نے یوکرینی تنازع پر پاکستان کے ردعمل کو بھی متاثر کیا۔

دوسری جانب بنگلہ دیش بھی چین کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کر رہا ہے۔

مزید پڑھیں: یوکرین بحران روس اور یورپ کے لیے کتنا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے؟

اگر بھارت کی بات کی جائے تو یہ پرانے اتحادی روس اور نئے اسٹریٹجک شراکت دار امریکا میں سے کسی ایک کا انتخاب نہیں کرنا چاہتا تھا اور اسی لیے اس نے ووٹ نہ دینے سے گریز کرنے کا فیصلہ کیا۔

تاہم امریکی ترجمان نے اس بات پر اصرار کیا کہ تمام 35 ممالک جنہوں نے ووٹ دینے سے گریز کیا ہے انہیں بھی اس معاملے پر سخت مؤقف اختیار کرنا چاہیے تھا۔

انہوں نے کہا کہ ’امریکا کا خیال ہے کہ ان ممالک کو روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کی واضح جارحیت کے خلاف واضح طور پر بات کرنی چاہیے اور یوکرین کے عوام کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے‘۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ امریکا یوکرین پر روس کے حملے کے خلاف مضبوط ردعمل کی اہمیت پر بات کرنے کے لیے دنیا بھر میں اپنے شراکت داروں کے ساتھ بات چیت کر رہا ہے‘۔

بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکا، یوکرینی تنازع پر جنوبی ایشیا کے نقطہ نظر کا جواب دینے میں انتہائی محتاط ہے۔

یہ بھی پڑھیں: یوکرین پر حملے کے بعد روس پر پابندیاں کتنی اہمیت کی حامل؟

سرد جنگ اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران جہاں پاکستان امریکا کا ساتھی ہوا کرتا تھا، وہیں بھارت اب ہند بحرالکاہل (انڈو پسیفک) کے خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے امریکا کی قیادت میں اتحاد کا ایک اہم رکن ہے۔

امریکا کے نیم سرکاری نشریاتی ادارے ’وائس آف امریکا‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں اقوام متحدہ میں پاکستان کے سفیر منیر اکرم نے غیر جانبدار رہنے کے لیے پاکستان کے نئے طریقہ کار کی وضاحت کی۔

یوکرین جنگ سے متعلق اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ہنگامی اجلاس میں پاکستان کی غیر حاضری پر وضاحت دیتے ہوئے منیر اکرم نے نشاندہی کی کہ قرارداد میں کچھ خدشات کو دور کیا گیا تاہم اس میں اب بھی دیگر اہم نکات شامل نہیں ہیں۔

انہوں نے 28 یورپی اور 2 شمالی امریکی ممالک کے نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن (نیٹو) کے فوجی اتحاد کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ’روس کو نیٹو کی اپنی سرحدوں تک توسیع پر تشویش ہے اور ان خدشات کا ذکر قرارداد میں نہیں کیا گیا ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں: روس نے یوکرین کے سر پر بندوق تان رکھی ہے، برطانوی وزیراعظم

ان کا کہنا تھا کہ ’ یہ ایک طرح سے یکطرفہ قرار داد تھی، ہم ایک متوازن نقطہ نظر چاہتے ہیں، اور ہم سمجھتے ہیں کہ اس تنازع کو گفتگو سے حل کیا جانا چاہیے‘۔

یوکرین میں شہریوں کی ہلاکتوں سے متعلق ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ شہریوں کی ہلاکتیں چاہے یوکرین میں ہوں یا کشمیر اور افغانستان میں، ان کی ہمیشہ مذمت کی جانی چاہیے۔

تاہم انہوں نے نشاندہی کی کہ اس معاملے پر ’بہت زیادہ پروپیگنڈا اور غلط خبریں نشر کی گئی ہیں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’حقائق کی تصدیق کرنا مشکل ہے اور یہ کہنا بھی مشکل ہے کہ کس پر بھروسہ کیا جائے، لیکن اگر واقعی عام شہری مارے جا رہے ہیں تو ظاہر ہے کہ ہم ایسی کارروائیوں کی مذمت کرتے ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ امریکا، چین اور کئی دوسرے ممالک امن کی کوششوں میں مصروف ہیں اور پاکستان بھی اس عمل میں اپنا شرکت کرنا چاہے گا۔

یہ بھی پڑھیں:روس کی مذاکرات پر رضامندی کے ساتھ یوکرین کے دوسرے بڑے شہر پر چڑھائی

ان کا کہنا تھا کہ جنگ کے خاتمے کے لیے تمام ممالک کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

دفتر خارجہ کا ایلچی کےخط پر اعتراض

دریں اثنا دفتر خارجہ نے پاکستان میں جرمنی اور فرانس سمیت مختلف غیر ملکی سفارتکاروں کے سربراہان کی جانب سے جاری کردہ بیان پر اعتراض کیا ہے، اس بیان میں حکومت پاکستان پر زور دیا گیا ہے کہ وہ یوکرین کے خلاف روسی کارروائی کو غیر سفارتی قرار دے۔

ہفتہ وار بریفنگ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ترجمان دفتر خارجہ عاصم افتخار کا کہنا تھا کہ ’ہم نے اس کا نوٹس لیتے ہوئے سفرا کے ایک گروپ سے ملاقات میں، اس معاملے اپنی تشویش کا اظہار کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ملاقات میں، میں نے ان سے اس طرح کی سفارت سے گریز کرنے کے لیے کہا، ممکنہ طور پر انہیں اس بات کا احساس ہوگیا ہے۔

رواں ہفتے کے آغاز میں سفرا کی جانب سے ایک بیان جاری کیا گیا تھا جس میں اسلام آباد سے کہا گیا تھا کہ پاکستان کی جانب سے یوکرین پر روس کے حملے کی مذمت کی جائے، یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس طلب کیا گیا تھا۔

بیان کے اوقات اور اس میں درج کیے گئے لفظوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ بیان اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بحث کے دوران پاکستانی موقف کو متاثر کرنے کے لیے جاری کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں:یوکرین کی سرحدوں کے قریب ڈیڑھ لاکھ روسی فوجی تعینات ہیں، یورپی یونین

تاہم حکومت پاکستان اپنے موقف پر ڈٹی رہی اور پاکستان اس معاملے سے باز رہا۔

عاصم افتخار نے زور دیا کہ سفارت کاروں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ سفارتی اصولوں اور طریقوں کی پابندی کریں۔

انہوں نے کہا کہ ’میڈیا کے ذریعے ایسی باتیں کہنا معمول کی سفارتی مشق نہیں ہے، اور ہم نے اسے واضح کر دیا ہے‘۔

تاہم، انہوں نے تسلیم کیا کہ روس یوکرین جنگ پر یورپی ممالک سے بات چیت جاری ہے، مذکورہ معاملے پر دفتر خارجہ میں مختلف سفیروں، سیکریٹری خارجہ، ایڈیشنل سیکریٹریز، ڈائریکٹر جنرلز اور دیگر کی سطح پر بھی گفتگو کی جارہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ سیکریٹری خارجہ آج کچھ سفیروں سے بھی ملاقات کر رہے ہیں اور یہ ہی سفارتی سرگرمیوں کے آغاز کا صحیح طریقہ تھا۔

انہوں نے کہا کہ دفتر خارجہ، اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کی کونسل کے آئندہ اجلاس کی تیاری کے باوجود غیر ملکی سفیروں کے ساتھ ’بہت فعال‘ اور مختصر وقت کی دعوت پر ملاقاتیں کر رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:یو این جی اے: روس کی مذمت کیلئے پاکستان سمیت 35 ممالک کا ووٹ دینے سے گریز

بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے یاد دہانی کروائی کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اپنے یورپی ہم منصبوں کے ساتھ بھی بات چیت کر رہے ہیں۔

شاہ محمود قریشی نے یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزف بوریل، ہنگری کے وزیر خارجہ سے بھی ٹیلی فون پر بات کی جبکہ رواں ہفتے کے آغاز میں انہوں نے اپنے پولینڈ کے ہم منصب سے بھی تبادلہ خیال کیا تھا۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان کے امریکا اور یورپی ممالک کے ساتھ ’بہترین تعلقات‘ ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم اپنے دوطرفہ تعاون کے دائرہ کار کو مزید وسعت دینے کے لیے ان تعلقات کو بامقصد، متوازن اور منصفانہ انداز میں آگے بڑھانے کے لیے پرعزم ہیں‘۔

عاصم افتخار نے امریکی سینیٹ کی طرف سے نامزد امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم کی نامزدگی کی تصدیق کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہاکہ ’ہم ان کی آمد کے منتظر ہیں اور ہم امریکا کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کے لیے مل کر کام کرنا چاہتے ہیں‘۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

ندیم احمد Mar 05, 2022 02:46pm
امریکہ کی خارجہ پالیسی دوسرے ممالک کو ڈرانے دھمکانے کے علاوہ اور کیا ہے۔ اقتصادی پابندیاں اگر اثر انداز نہ ہو تو امریکہ جنگ مسلط کر دیتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد اس طرح کی پالیسی کی ایک طویل فہرست ہے۔