سندھ ہائیکورٹ: جبری رخصت پر بھیجی گئیں وائس چانسلر عہدے پر بحال

اپ ڈیٹ 10 مارچ 2022
بینچ نے مشاہدہ کیا کہ خواتین کی حفاظت اور قومی زندگی میں ان کی مکمل شراکتداری یقینی بنانا ہماری آئینی ذمہ داری ہے — فائل فوٹو: ہائیکورٹ فیس بک
بینچ نے مشاہدہ کیا کہ خواتین کی حفاظت اور قومی زندگی میں ان کی مکمل شراکتداری یقینی بنانا ہماری آئینی ذمہ داری ہے — فائل فوٹو: ہائیکورٹ فیس بک

سندھ ہائی کورٹ نے دو طلبہ کی خودکشی کے بعد جبری رخصت پر بھیجی جانے والی محترمہ بے نظیر بھٹو میڈیکل یونیورسٹی (ایس ایم بی بی ایم یو) لاڑکانہ کی وائس چانسلر کو عہدے پر بحال کرتے ہوئے حکومت کو ہدایت دی ہے کہ صوبے بھر کی سرکاری جامعات اور کالجز کے گرلز ہاسٹلز میں لیڈی پولیس کمانڈوز تعینات کی جائیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایس ایم بی بی ایم یو کی وائس چانسلر ڈاکٹر انیلا عطاالرحمٰن کی جانب سے دائر کردہ درخواست کی سماعت کے دوران جسٹس آفتاب احمد گورر کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے یہ حکم دیا، جس میں انہوں نے اپنی جبری رخصت کو عدالت میں چیلنج کرتے ہوئے ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ طلب کرنے کی استدعا کی تھی۔

عدالت کی جانب سے گزشتہ سماعت میں ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دی گئی تھی۔

عدالت نے اپنے حکم میں کہا کہ بینچ نے غور کیا ہے کہ درخواست گزار پر لگائے گئے الزامات اب تک ثابت نہیں کیے گئے ہیں اور ریکارڈ میں ان کے خلاف کوئی مواد بھی موجود نہیں ہے، لہٰذا وہ بطور وی سی اپنی خدمات جاری رکھ سکتی ہیں۔

مزید پڑھیں: سندھ: جبری رخصت کے بعد دو جامعات کے وائس چانسلرز کے خلاف تحقیقات کا آغاز

عدالت کی جانب سے ایم بی بی ایس کی طلبہ نمرتا چاندانی اور نوشین کاظمی کی خودکشی میں ایس ایم بی بی ایم یو کی وی سی کے ملوث ہونے سے متعلق ابتدائی تجویز جمع کروانے کے لیے کمیٹی کو دو ہفتے کی مہلت دی گئی تھی۔

سماعت کے دوران عدالت نے یہ بات واضح کی تھی کہ دو ہفتے گزرنے کے بعد کمیٹی کو رپورٹ جمع کروانے کے لیے مزید مہلت نہیں دی جائے گی، اس کے بعد قانون اپنا راستہ اختیار کرے گا۔

عدالت نے پولیس اور رینجرز کو ہدایت دی کہ خواتین طلبہ کو مجرمانہ ذہنیت رکھنے والے افراد کے ظلم و ستم سے بچاتے ہوئے تحفظ فراہم کیا جائے تاکہ وہ سنجیدگی اور پُرامن دماغ کے ساتھ تعلیم حاصل کر سکیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ سنگین مسئلہ ہے کیونکہ اس میں طلبہ کی زندگی اور آزادی شامل ہے، ہم یہ مشاہدہ کر سکتے ہیں کہ مردوں کے زیر تسلط معاشرے میں خواتین کے لیے مخالفانہ اور حریفانہ ماحول ملکی ترقی میں تعاون کے ساتھ ساتھ ان کے تعلیم اور ملازمت کے حق میں بھی رکاوٹ کا سبب ہے۔

مزید پڑھیں: سندھ کی جامعہ میں طالبات کی خودکشی کے معاملے پر وائس چانسلر کے کردار سے متعلق رپورٹ طلب

بینچ نے مشاہدہ کیا کہ خواتین کی حفاظت اور قومی زندگی میں ان کی مکمل شراکت داری یقینی بنانا ہماری آئینی ذمہ داری ہے۔

درخواست گزار کے وکیل نے دلیل دی کہ ایم بی بی ایس کے طلبہ کی خودکشی کے سبب مجازی حکام نے وائس چانسلر کو جبری رخصت پر بھیجا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اس سے متعلق تمام تحقیقات مفروضوں پر مبنی تھیں، ریکارڈ میں ان کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں ہے۔

ستمبر 2019 میں بی ڈی ایس آخری سال کی طالبہ نمرتا چندانی اپنے ہاسٹل میں مردہ پائی گئی تھیں جبکہ نوشین شاہ کاظمی ایم بی بی ایس آخری سال کی طالبہ تھیں، انہوں نے بھی نومبر 2021 میں مبینہ طور پر اپنے کمرے کے پنکھے سے کے لٹک کر خودکشی کرلی تھی۔

مزید پڑھیں: طالبات ہراسانی کیس: لاڑکانہ یونیورسٹی کی وائس چانسلر عہدے سے برطرف

دریں اثنا بینچ نے شہید بے نظیر بھٹو یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈ اینیمل سائنسز سکرند کے وی سی کو بھی دوبارہ عہدہ سنبھالنے کی اجازت دے دی۔

وائس چانسلر ڈاکٹر فاروق حسن نے بھی اپنے وکیل کے ذریعے سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا اور مؤقف اختیار کیا تھا کہ ڈاکٹر جہانگیر سے ایک نجی مسئلے میں انہیں 45 روز کے لیے جبری چھٹیوں پر بھیجا گیا۔

وکیل نے دلیل دی کہ درخواست گزار کرپشن اور نہ ہی ڈاکٹر جہانگیر کی کارروائی کا ذمہ دار ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں