احتجاج کرنے والے بلوچ طلبہ کیخلاف مقدمہ خارج ہونے پر عدالت نے درخواست نمٹا دی

بلوچستان کے طالبعلم کی گمشدگی کے خلاف نیشنل پریس کلب کے سامنے احتجاج کرنے والے مظاہرین کیخلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا—
بلوچستان کے طالبعلم کی گمشدگی کے خلاف نیشنل پریس کلب کے سامنے احتجاج کرنے والے مظاہرین کیخلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا—

اسلام آباد ہائی کورٹ نے نیشنل پریس کلب کے باہر احتجاج کرنے والے بلوچ طلبہ کے خلاف مقدمہ خارج کرنے کی درخواست مقدمہ واپس لیے جانے پر نمٹا دی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے نیشنل پریس کلب کے باہر احتجاج کرنے والے بلوچ طلبہ کے خلاف مقدمہ خارج کرنے کی درخواست پر سماعت کی۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد: شیریں مزاری کی بیٹی سمیت 200 افراد کےخلاف مقدمہ درج

سماعت کے دوران درخواست گزاروں کی جانب سے زینب جنجوعہ اور ایمان مزاری جبکہ پولیس کی جانب سے ایس ایچ او شبیر تنولی عدالت میں پیش ہوئے۔

ڈپٹی اٹارنی جنرل سید طیب شاہ نے عدالت کو بتایاکہ پولیس نے اپنی ایف آئی آر واپس لے لی ہے جس پر چیف جسٹس نے درخواست گزار وکیل زینب جنجوعہ سے استفسار کیاکہ کیا اب آپ کے تحفظات دور ہو گئے ہیں؟۔

اس پر وکیل زینب جنجوعہ نے بتایا کہ یہ ہر بار ایسا ہی کرتے ہیں، پہلے ایف آئی آر درج کرتے ہیں پھر واپس لے لیتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ایف آئی آر واپس ہو گئی ہے لہٰذا ہم اس کو نمٹا رہے ہیں۔

عدالت نے ایف ائی آر واپس ہونے پر درخواست نمٹا دی۔

یہ بھی پڑھیں: پولیس کو ایمان مزاری، بلوچ طلبہ کے خلاف کیس میں گرفتاری سے روک دیا گیا

یاد رہے کہ مظاہرین نے بلوچستان کے علاقے خضدار سے ایک طالبعلم کی گمشدگی کے خلاف نیشنل پریس کلب کے سامنے احتجاجی کیمپ لگایا ہوا تھا۔

کوہسار پولیس تھانے میں اسٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او) کی شکایت پر مقدمہ درج کیا گیا تھا جس میں ’مجرمانہ سازش، فسادات، غیر قانونی مجمع، حکم عدولی، ہتک عزت، نقص امن اور پولیس کے خلاف حملے پر اکسانے کے ارادے سے جان بوجھ کر توہین‘ کرنے کے الزامات لگائے گئے تھے۔

ایف آئی آر کے مطابق مظاہرین نے یکم مارچ کو نیشنل پریس کلب کے سامنے اور کیمپ کے باہر پولیس پر پتھر برسائے، کیمپ داد شاہ، ایمان مزاری اور قمر بلوچ کی سربراہی میں بلوچ اسٹوڈنٹ کونسل نے لگایا تھا جس میں 200 طلبہ شریک تھے۔

طلبہ میں زیادہ تر کا تعلق قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے تھا جو خضدار سے اپنے ساتھی حفیظ بلوچ کی پراسرار گمشدگی کے خلاف احتجاج کررہے تھے۔

مزید پڑھیں: طلبہ کی بازیابی کی یقین دہانی پر بلوچستان یونیورسٹی میں جاری دھرنا مؤخر

مقدمے میں کہا گیا کہ پولیس کے انتباہ کے باوجود مظاہرین نے ٹینٹ لگایا جو پولیس کو بزور طاقت اپنے قبضے میں لینا پڑا جس کے نتیجے میں جھڑپ ہوئی تھی اور پولیس اور طلبہ کے درمیان جھڑپ میں 6 طالبعلم اور انسداد فسادات یونٹ کے 2 افسران بھی زخمی ہوئے تھے۔

بعدازاں اس مقدمے کی سماعت کے موقع پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا تھا کہ بادی النظر میں اس ایف آئی آر کو خارج کیا جانا چاہیے۔

عدالت کا کہنا تھا کہ پرامن احتجاج کرنے والے طلبہ کے مطالبات اور شکایات کو نظر انداز اور ان کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک نہ کر کے حکام نے یہ ثابت کردیا کہ ان کا احتساب ہونا چاہیے۔

چیف جسٹس نے وزیراعظم سمیت وفاقی کابینہ کو احتجاج کرنے والے بلوچ طلبہ کی شکایات کو دور کرنے کی ہدایت کی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں