اسٹیٹ بینک کے ذخائر 15 ارب ڈالر سے کم رہ گئے

اپ ڈیٹ 25 مارچ 2022
مالیاتی مارکیٹ کے ماہرین زرمبادلہ کے ذخائر میں ہونے والی بڑی کمی کو غیر معمولی نہیں سمجھ رہے — فائل فوٹو: اے پی پی
مالیاتی مارکیٹ کے ماہرین زرمبادلہ کے ذخائر میں ہونے والی بڑی کمی کو غیر معمولی نہیں سمجھ رہے — فائل فوٹو: اے پی پی

قرضوں کی ادائیگیوں کے لیے ہفتہ وار 86 کروڑ 90 لاکھ ڈالر کے بڑے پیمانے پر اخراج نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کے زرمبادلہ کے ذخائر کو تقریباً ایک سال میں پہلی بار 15 ارب ڈالر سے نیچے پہنچا دیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق زرمبادلہ کے ذخائر میں مسلسل کمی حکومت کی پریشانیوں میں اضافہ کر رہی ہے جو پہلے ہی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں زبردست کمی کے دوران اپنے دور حکومت کے ریکارڈ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا سامنا کر رہی ہے۔

اسٹیٹ بینک نے رپورٹ کیا کہ 18 مارچ کو ختم ہونے والے ہفتے میں اس کے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 14 ارب 96 کروڑ 2 لاکھ ڈالر تک گر گئے، جو کہ اپریل 2021 کے بعد کم ترین سطح ہے جب مرکزی بینک کی فاریکس ہولڈنگز 15 ارب 5 کروڑ 98 لاکھ ڈالر تھیں، مارچ 2021 میں اسٹیٹ بینک کے ذخائر 13 ارب 4 کروڑ 93 لاکھ ڈالر تھے۔

تاہم مالیاتی مارکیٹ کے ماہرین زرمبادلہ کے ذخائر میں ہونے والی بڑی کمی کو غیر معمولی نہیں سمجھ رہے، ان کے مطابق یہ کوئی نئی بات نہیں ہے اور ماضی میں بھی ایسا ہوا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: مالی سال 19-2018: اسٹیٹ بینک کے منافع میں 95 فیصد کمی، وزارت خزانہ

عارف حبیب سیکیورٹیز کے سربراہ برائے تحقیق طاہر عباس نے کہا کہ ذخائر میں گراوٹ اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کا اشارہ ہے لیکن یہ اس بات کی عکاسی نہیں کرتا کہ صورتحال قابو سے باہر ہو رہی ہے۔

ایس بی پی کی فاریکس ہولڈنگز میں رواں ماہ کے 18 دنوں میں ایک ارب 4 کروڑ 24 لاکھ ڈالر کی کمی ریکارڈ کی گئی، جبکہ اگست 2021 سے اب تک اسے تقریباً 5 ارب 11 کروڑ ڈالر کا نقصان ہوا۔

اس عرصے کے دوران اسٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف اور سکوک کی آمدنی سے 2 ارب ڈالر موصول ہوئے، اگر 2 ارب ڈالر کی آمد کو بھی شمار کیا جائے تو اگست کے بعد اسٹیٹ بینک کے ذخائر میں مجموعی کمی 7 ارب ڈالر تک پہنچ گئی۔

حکومت اپنے گرتے ہوئے زرمبادلہ کے ذخائر کو سہارا دینے کے لیے رواں مالی سال 2022 کے دوران ایک ارب ڈالر کا ایک اور سکوک جاری کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔

مزید پڑھیں: اسٹیٹ بینک کے ذخائر میں ایک ہفتے میں 56 کروڑ ڈالر سے زائد کی کمی

خاص طور پر مالی سال 2022 کے پہلے 8 ماہ کے دوران درآمدات میں 47 فیصد اضافے اور 12 ارب ڈالر کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے تناظر میں صورتحال سنگین نظر آتی ہے۔

طاہر عباس نے کہا کہ درآمدی بل میں 47 فیصد اضافے کے نتیجے میں 12 ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ ہوا لیکن پاکستان یہ رقم پہلے ہی ادا کر چکا ہے، یہ وہ خالص ذخائر ہیں جو اس وقت اسٹیٹ بینک کے پاس ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حکومت قرض کی ادائیگی بھی کر رہی ہے اور اس نے رواں مالی سال کی پہلی 2 سہ ماہیوں کے دوران تقریباً 6 ارب ڈالر ادا کیے ہیں جبکہ اس نے مالی سال 2021 کے دوران قرض کی مد میں 13 ارب 4 کروڑ ڈالر ادا کیے۔

ان کا کہنا تھا کہ ملک نے رواں مالی سال کے دوران کورونا وبا کے انسداد کے لیے ویکسینز کی درآمد کے لیے 2 سے ڈھائی ارب ڈالر ادا کیے، جس سے درآمدی بل میں اضافہ ہوا، اجناس کی بڑھتی قیمتوں، خصوصاً تیل نے درآمدات کو بہت مہنگا بنا دیا۔

یہ بھی پڑھیں: اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر 5 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئے

انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں کرنسی ڈیلرز اس بات پر یقین نہیں رکھتے تھے کہ اسٹیٹ بینک کے گرتے ہوئے ذخائر شرح مبادلہ پر بھاری پڑ سکتے ہیں۔

پاکستان کی ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری ظفر پراچہ نے کہا کہ تیل کی بلند قیمتوں اور درآمد کنندگان کی جانب سے زیادہ مانگ سمیت کئی وجوہات کی وجہ سے ڈالر کی قدر بڑھ رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ آنے والے دنوں میں روپے کے مقابلے میں ڈالر مزید بڑھ سکتا ہے لیکن اس کی وجہ صرف اسٹیٹ بینک کے گرتے ذخائر نہیں ہوں گے۔

اسٹیٹ بینک کی جانب سے مارکیٹ کو یہ یقین دلایا جاتا رہا ہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے اور بیرونی قرضوں کی سروسنگ کو پورا کرنے کے لیے مناسب فنڈنگ دستیاب ہے، مرکزی بینک کو مالی سال 2022 میں تقریباً 30 ارب ڈالر کی ترسیلات موصول ہونے کا بھی یقین ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں