تحریک عدم اعتماد: 2 اراکین قومی اسمبلی کے بغیر بھی اپوزیشن جیت کیلئے پُر یقین

اپ ڈیٹ 30 مارچ 2022
اپوزیشن کے پاس پارلیمنٹ کے ایوان زیریں میں 163 اراکین ہیں— فائل فوٹوز: قومی اسمبلی ویب سائٹ
اپوزیشن کے پاس پارلیمنٹ کے ایوان زیریں میں 163 اراکین ہیں— فائل فوٹوز: قومی اسمبلی ویب سائٹ

اپوزیشن کی جانب سے اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر پر جنوبی وزیرستان کے زیر حراست آزاد رکن قومی اسمبلی علی وزیر اور کراچی سے پاکستان پیپلز پارٹی کے ایم این اے جام عبدالکریم بجار کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے تاکہ قومی اسمبلی میں دونوں اراکین کی وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی ووٹنگ میں شرکت کو یقینی بنایا جاسکے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اپوزیشن پُر امید ہے کہ ووٹنگ کے روز ان کا یہ اقدام دونوں قانون سازوں کے بغیر بھی کامیاب ہوجائے گا۔

مشترکہ اپوزیشن کے اراکین نے 25 مارچ کو اسپیکر قومی اسمبلی کو ایک تحریری درخواست جمع کرائی تھی، جس میں کہا گیا کہ وہ پارٹی وابستگی سے قطعہ نظر نظر بند قانون ساز کے لیے پروڈکشن آرڈر جاری کریں تاکہ وہ اپنے ووٹ کا حق استعمال کرسکیں۔

خیال رہے کہ پشتون تحفظ موومنٹ کے حمایت یافتہ علی وزیر سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اشتعال انگیز تقاریر کرنے کے الزام میں 31 دسمبر 2020 سے جیل میں ہیں۔

مزید پڑھیں:تحریک عدم اعتماد سے اصل نقصان آخر کس کا؟

سپریم کورٹ نے رکن قومی اسمبلی کو گزشتہ سال نومبر میں ضمانت دی تھی، تاہم انسداد دہشت گردی عدالت کی جانب سے گرفتاری کا ایک اور حکم جاری کرنے سے قبل اضافی تصدیق کے لیے ان کی رہائی روک دی گئی۔

علاوہ ازیں گزشتہ روز سندھ ہائی کورٹ نے پاکستان پیپلز پارٹی کے ایم این اے جام کریم کی درخواست ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے مسترد کر دی۔

درخواست میں قتل کیس میں حفاظتی ضمانت کے باوجود ان کا نام پروونشل نیشنل آئیڈینٹیفکیشن لسٹ میں شامل کرنے پر شیخ رشید کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی اور ضمانت میں توسیع کی استدعا کی گئی تھی۔

نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ محسن داوڑ، مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف، پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اختر مینگل اور دیگر کے دستخطوں پر مشتمل درخواست میں کہا گیا ہے کہ ’بطور اسپیکر قومی اسمبلی آپ کے عہدے کی غیر جانبداری کا تقاضا ہے کہ آپ پارٹی وابستگی سے قطعہ نظر اراکین قومی اسمبلی کے پروڈکشن آرڈر جاری کریں تا کہ پاکستان کے ہر حلقے کا نمائندہ اپنے ووٹ کا حق ادا کرسکے‘۔

مزید پڑھیں: تحریک عدم اعتماد کے دن حکومتی اور اتحادی اراکین اسمبلی ایوان میں موجود نہیں ہوں گے، بابر اعوان

قومی اسمبلی کے قواعد کے مطابق اسپیکر یا کمیٹی کے چیئرمین کو گرفتار قانون سازوں کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کا اختیار ہوتا ہے تاکہ ایوان کے اجلاس کے دوران ان کی شرکت کو یقینی بنایا جاسکے۔

ماضی میں بہت سے اسپیکر اس اختیار کا استعمال کرچکے ہیں، اسپیکر اسد قیصر نے اس سے قبل بھی علی وزیر کا پروڈیکشن آرڈر جاری کیا تھا، جنہوں نے عام انتخابات 2018 کے بعد سے زیادہ عرصہ جیل میں گزارا ہے۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ اسپیکر کو علی وزیر کا پروڈکشن آرڈر جاری کرنا چاہیے۔

تاہم انہوں نے کہا کہ اگر اسپیکر نے ایسا نہ بھی کیا تو تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے اپوزیشن کے پاس درکار ووٹوں کی تعداد مکمل ہے۔

رکن قومی اسمبلی جام کمال کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ یہ ہر شخص کا انفرادی حق ہے کہ عدالت کی جانب سے اسے حفاظتی ضمانت دی جائے اور عدالت ایسا کرچکی ہے۔

مزید پڑھیں: تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ قریب آتے ہی سب ارکان واپس آئیں گے، وزیراعظم

بلاول بھٹو زرداری نے وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کا حوالہ دیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی کو گرفتار کرلیا جائے گا۔

بات جاری رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ امید ہے کہ عدالت ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کرے گی جو اس کے حکم کی خلاف ورزی کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔

تاہم دونوں اراکین کو اجازت نہ ملنے کے امکان کے باوجود چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری اپوزیشن کے اقدام کی کامیابی سے متعلق اعتماد کا اظہار کیا۔

بی اے پی کے چار اراکین، جمہوری وطن پارٹی کے رکن قومی اسمبلی شاہ زین بگٹی اور دو آزاد امیدواروں علی نواز شاہ اور اسلم بھوتانی کی جانب سے اپوزیشن کی حمایت کا اعلان کیا ہے جس کی وجہ سے پیپلز پارٹی کی قیادت پُر اعتماد دکھائی دیتی ہے۔

مزید پڑھیں: پیپلز پارٹی تحریک عدم اعتماد سے قبل اپوزیشن کے جلسے کی مخالف

پیر کو اسمبلی کے سامنے عدم اعتماد کی قرارداد پیش کرنے کے وقت اپوزیشن اپنے تمام اراکین کی موجودگی کو یقینی بنانے میں کامیاب ہو گئی تھی جس کے بعد شہباز شریف نے 161 اراکین کی حمایت کے ساتھ باضابطہ طور پر قرار داد پیش کردی تھی۔

اس وقت اپوزیشن کے پاس پارلیمنٹ کے ایوان زیریں میں 163 اراکین ہیں اور جب قرارداد پیش کی گئی تو صرف علی وزیر اور جام کریم اسمبلی میں موجود نہیں تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں