کابل:طالبان نے افغانستان میں پوست کی کاشت پر پابندی لگادی

اپ ڈیٹ 03 اپريل 2022
افغانستان میں پوست کی کاشت سے افیون نکالی جارہی ہے—۔فائل فوٹو/ اے ایف پی
افغانستان میں پوست کی کاشت سے افیون نکالی جارہی ہے—۔فائل فوٹو/ اے ایف پی

طالبان کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ نے افغانستان میں پوست کی کاشت پر پابندی کا حکم جاری کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ حکومت فصل کی کاشت کرنے والے کسانوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرے گی۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کی خبر کے مطابق افغانستان پوست پیدا کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے، پوست کا استعمال ہیروئن کو بہتر بنانے کے لیے کیا جاتا ہے اور حالیہ برسوں میں اس کی پیداوار اور برآمدات میں اضافہ ہوا ہے۔

سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ کی جانب سے جاری کردہ ایک حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ تمام افغان باشندوں کو اطلاع دی جاتی ہے کہ اب سے پورے ملک میں پوست کی کاشت پر سخت پابندی عائد کر دی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:افغانستان میں پوست کی کاشت، وزیر داخلہ کو تشویش

یہ حکم حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے صحافیوں، غیر ملکی سفارت کاروں اور طالبان حکام کے ایک اجتماع میں پڑھ کر سنایا۔

جاری حکم نامے میں مزید کہا گیا ہے کہ اگر کوئی حکم نامے کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اس کی فصل کو فوری طور پر تلف کردیا جائے گا اور خلاف ورزی کرنے والے کے ساتھ شرعی قانون کے مطابق سلوک کیا جائے گا۔

پوست کی کاشت پر پابندی عائد کرنے کا یہ پہلا موقع نہیں جب طالبان نے تجارت کو غیر قانونی قرار دینے کا عزم ظاہر کیا ہو۔

طالبان نے 2000 میں بھی پوست کی پیداوار پر پابندی عائد کر دی تھی۔

یہ بھی پڑھیں:طالبان نے غیر ملکی کرنسی کے استعمال پر پابندی عائد کردی

ماہرین کا کہنا ہے کہ غیر ملکی افواج کے خلاف اپنی 20 سالہ جنگ کے دوران طالبان نے اپنے زیر قبضہ علاقوں میں فصل کاشت کرنے والے کسانوں پر بھاری ٹیکس عائد کیا تھا اور یہ ٹیکس طالبان کے لیے فنڈز حاصل کرنے کا ایک اہم ذریعہ بن گیا۔

پوست کے کاشتکار عبدالرحمٰن نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ پابندی ان کی روزی روٹی کے لیے ایک دھچکا ہے، ہم نے پوست کی کاشت کے لیے قرضہ لیا ہے، اگر یہ فصل تباہ ہوجاتی ہے توہماری آمدنی ختم ہو جائے گی۔

طالبان کی طاقت کے اصل مرکز اور گڑھ جنوبی صوبے قندھار سے تعلق رکھنے والے کاشت کار عبدالرحمٰن کا مزید کہنا تھا کہ وہ بھی یہ فصل کاشت نہیں کرنا چاہتے، وہ بھی اس کی کاشت سے بیزار ہیں، ہم جانتے ہیں کہ اس سے ہماری آنے والی نسلیں اس کی لت میں مبتلا ہوجائیں گی مگر کیا کریں ہم اس کی کاشت پر مجبور ہیں۔

امریکا اور نیٹو افواج نے افغانستان میں اپنی دو دہائیوں کے دوران پوست کی کاشت کو روکنے کی کوشش کی اور کسانوں کو ادائیگیاں کیں کہ وہ گندم یا زعفران جیسی متبادل فصلیں اگائیں۔

مزید پڑھیں:افغانستان کو برآمدات کیلئے مقامی کرنسی کے استعمال پر غور

لیکن ماہرین کے مطابق امریکا اور نیٹو کی کی کوششوں کو طالبان نے ناکام بنا دیا جن کا پوست کی کاشت کے اہم علاقوں پر قبضہ تھا اور اس کی تجارت سے انہوں نے کروڑوں ڈالر کمائے۔

افغانستان کی افیون کی تجارت پر ایک کتاب کے مصنف ڈیوڈ مینسفیلڈ کا کہنا ہے کہ طالبان کے لیے تازہ ترین پابندی کو نافذ کرنا مشکل ہو گا، کیونکہ کسانوں نے کٹائی کے لیے تیار فصل پر کافی وسائل لگا دیے ہیں۔

ڈیوڈ مینسفیلڈ نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ کسانوں کے لیے یہ صرف افیون نہیں، یہ ان کے لیے نقد رقم ہے۔

گزشتہ سال اگست میں طالبان کے ملک پر قبضے کے بعد غیر ملکی امداد کرنے والے اداروں کی جانب سے ملک کی امداد بند کرنے کے بعد سے افغانستان کا معاشی اور انسانی بحران مزید سنگین ہو گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:امریکا نے ہلمند کے طالبان چیف کو منشیات اسمگلر قرار دیدیا

ڈیوڈ مینسفیلڈ کا کہنا ہے کہ یہ پابندی طالبان کی جانب سے ملک میں جاری سیاسی بحث کو لڑکیوں کی تعلیم اور انسانی حقوق جیسے مسائل سے ہٹانے کی کوشش ہے۔

گزشتہ ماہ اقتدار پر قبضے کے بعد پہلی بار طالبان نے لڑکیوں کے لیے تمام سیکنڈری اسکولوں کو کھولنے کے چند گھنٹے بعد ہی دوبارہ بند کردیا تھا جس سے عالمی سطح پر سخت تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔

افغان میڈیا رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے دو جنوبی صوبوں قندھار اور ہلمند میں پوست کی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے، تاہم اعداد و شمار فراہم نہیں کیے گئے۔

یہ بھی پڑھیں:افغانستان: بے روزگار نوجوان 'کام' کیلئے افیون کے کھیتوں کا رخ کرنے لگے

اقوام متحدہ کے ادارے برائے منشیات اور جرائم کے مطابق پوست کی عالمی پیداوار کے 80 سے 90 فیصد حصے کے ساتھ افغانستان کی افیون اور ہیروئن کی کاشت پر تقریباً اجارہ داری ہے۔

اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق پوست کی کاشت کے لیے استعمال ہونے والی زمین کی مقدار 2017 میں ریکارڈ بلندی پر پہنچ گئی تھی اور حالیہ برسوں میں اس کی اوسط تقریباً 2 لاکھ 50 ہزارہیکٹر رہی، جو کہ 1990 کی دہائی کے وسط کی سطح سے تقریباً چار گنا زیادہ ہے۔

2020 میں اقوام متحدہ کے سروے کے مطابق افغانستان کے 34 میں سے 22 صوبوں میں پوست کی کاشت کی گئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں