'آئندہ مالی سال کا بجٹ 10 جون کو قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا'

اپ ڈیٹ 21 مئ 2022
سبسڈی میں کمی کا پہلا حصہ پیر سے نافذالعمل ہوجائے گا—فائل فوٹو: شٹراسٹاک
سبسڈی میں کمی کا پہلا حصہ پیر سے نافذالعمل ہوجائے گا—فائل فوٹو: شٹراسٹاک

دوحہ میں عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ جاری مذاکرات کے درمیان حکومت 10 جون کو قومی اسمبلی میں وفاقی بجٹ برائے سال 23-2022 پیش کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سیکریٹری خزانہ حمید یعقوب شیخ نے متعلقہ حکام کو آگاہ کیا ہے کہ 'مالی سال 2022-23 کا سالانہ بجٹ فنانس بل 2022 کے ساتھ جمعہ 10 جون 2022 کو پاکستان کی قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا'۔

حمید شیخ نے سیکریٹری کابینہ ڈویژن سے یہ بھی کہا کہ 'برائے مہربانی بجٹ کی تجاویز پر غور کے لیے وفاقی کابینہ کا خصوصی بجٹ اجلاس بلایا جائے'۔

یہ بھی پڑھیں: برآمد کا منصوبہ دینے والی کمپنیوں کو ٹیکس چھوٹ دی جائے گی، مفتاح اسمٰعیل

ذرائع نے بتایا کہ حکومت وفاقی بجٹ سے متعلق اہم اجلاس بلائے گی، جس کا آغاز جون کے پہلے ہفتے میں سالانہ پلان کوآرڈینیشن کمیٹی (اے پی سی سی) سے کیا جائے گا تاکہ 16 منقطع شدہ وزارتوں کے تحت صوبائی منصوبوں کے لیے مختص کیے جانے والے تقریباً 700 ارب روپے کے ترقیاتی پروگرام کو حتمی شکل دی جا سکے۔

اسی طرح قومی اقتصادی کونسل کا اجلاس 7 جون کو بلانے پر غور کیا جا رہا ہے جس کے بعد 10 جون کو بجٹ پر کابینہ کا خصوصی اجلاس ہوگا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ دوحہ میں آئی ایم ایف مشن کے ساتھ ہونے والی بات چیت میں آئندہ سال کے لیے مالیاتی فریم ورک پر بات ہوئی جس کی بنیاد پر اگلے سال کا وفاقی ترقیاتی پروگرام 700 ارب روپے سے زیادہ کا متحمل نہیں ہوسکتا ورنہ ٹیکس کا بوجھ بڑھانا پڑے گا۔

ذرائع نے بتایا کہ سیکریٹری خزانہ نے آئی ایم ایف کے مذاکرات میں شرکت کی تھی اور حکومت کی جانب سے 45 دن سے دو ماہ کے عرصے میں ایندھن اور بجلی کی سبسڈی کو بتدریج ختم کرنے کے عزم سے آگاہ کیا تا کہ عوام کو اچانک دھچکا لگنے سے بچایا جا سکے۔

تاہم سبسڈی میں کمی کے متفقہ منصوبے کے تحت کیا جائے گا، وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل اور وزیر مملکت برائے خزانہ ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا پیر کو مذاکرات میں شامل ہوں گے۔

مزید پڑھیں: بہتر ہے توانائی، بجلی کی قیمتوں پر سخت فیصلے ابھی کرلیے جائیں، خرم دستگیر

ان ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ سبسڈی میں کمی کے منصوبے کا پہلا حصہ بدھ کو آئی ایم ایف کے ساتھ پالیسی سطح کے مذاکرات کے اختتام سے پہلے پیر سے نافذ العمل ہو جائے گا۔

ان ذرائع کا کہنا ہے کہ رواں مالی سال کو ریکارڈ مالیاتی خسارے کے ساتھ گزرا ہوا نتیجہ سمجھا جا رہا ہے جس میں موجودہ حکومت سابقہ حکومت کے تمام فیصلوں کی لاگت کو رواں سال میں ڈالنا چاہتی ہے۔

تاہم، آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ جاری مذاکرات کو مثبت انداز میں ختم کرنے سے پہلے سبسڈی میں کمی سے متعلق اقدامات کیے جائیں۔

ذرائع نے بتایا کہ حکام نے وفاقی بجٹ کے مسلسل بوجھ کو کم کرنے اور اپنی آمدنی کو مالیاتی خسارے کو پورا کرنے کے لیے استعمال کرنے کے لیے حصص کی تقسیم اور پبلک سیکٹر کے اداروں خصوصاً توانائی کے شعبے کی کمپنیوں کی نجکاری کے لیے ایک عارضی منصوبہ بھی شیئر کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت کا ’ہنگامی معاشی منصوبہ‘، لگژری اشیا کی درآمد پر پابندی

جس کے شیڈول کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی مشاورت سے حتمی شکل دی جائے گی اور اسے اسٹرکچرل بینچ مارک کے طور پر معاہدے کا حصہ بنایا جائے گا۔

مفتاح اسمٰعیل نے آئی ایم ایف کو سخت فیصلے لینے، پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے اصل فنڈ پروگرام میں کی گئی اصلاحات اور مکمل اسٹرکچرل بینچ مارک کی یقین دہانی کرائی ہے، ان اقدامات کو ساختی بینچ مارکس کے بیک لاگ کو صاف کرنے کے لیے اہم سمجھا جاتا تھا۔

دونوں فریقین نے عمومی طور پر اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ پروگرام کی مدت میں ایک سال کی توسیع اور پروگرام کے حجم میں 2 ارب ڈالر کا اضافہ مالیاتی اہداف کو پورا کرنے کے بجائے بنیادی وجوہات کو حل کرنے والے اسٹریٹیجک اسٹرکچرل بینچ مارک سے منسلک ہونا چاہیے۔

انہوں نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ ایسے معیارات قائم کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے جس کے تحت بنیادی چیلنجز دور نہیں کیے جاتے اور تکلیف دہ اقدامات کے باوجود بار بار واپس آتے ہیں۔

اس طرح پاور کمپنیوں اور دیگر خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں کی نجکاری کو نظرثانی شدہ اور8 ارب ڈالر کے اپ گریڈڈ فنڈ پروگرام میں اسٹرکچرل بینچ مارک کے طور پر شامل کرنے پر اتفاق کیا گیا تاکہ گردشی قرضوں کے بہاؤ کو ہمیشہ کے لیے حل کیا جائے اور نجکاری کے ذریعے قرضوں کے ذخیرے کو تحلیل کیا جائے۔

تبصرے (0) بند ہیں