سندھ، پنجاب کو پانی کی سنگین قلت کا سامنا

سندھ اور پنجاب میں مجموعی طور پر 45 فیصد پانی کی قلت کا سامنا ہے —فائل فوٹو:
سندھ اور پنجاب میں مجموعی طور پر 45 فیصد پانی کی قلت کا سامنا ہے —فائل فوٹو:

ملک میں آبی قلت سنگین صورتحال اختیار کرتی جا رہی ہے، جیسا کہ پنجاب کی نہروں کو اس وقت 49 فیصد پانی کی قلت کا سامنا ہے اسی طرح سندھ میں بھی پانی کا بہاؤ کافی کم ہوگیا ہے جو بیراجوں پر اثر انداز ہورہا ہے جس کے باعث مجموعی قلت 49.5 فیصد ہوگئی۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق سندھ کے محکمہ آبپاشی نے ایک بار پھر پانی کی تقسیم کرنے والے وفاقی ادارے انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) سے صوبے کے لیے اضافی پانی دینے پر زور دیا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ سندھ میں پنجاب سے بھی زیادہ پانی کی قلت ہے۔

دونوں صوبوں کے درمیان پانی کے معاملے پر اعتراضات کو دور کرنے کے لیے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے آبی وسائل کی آج میٹنگ متوقع ہے جس میں نہ صرف صوبوں کے پانی کے معاملات پر تبادلہ خیال ہوگا بلکہ حال ہی میں کمیٹی کی جانب سے دونوں صوبوں کے بیراجوں میں کی جانے والی پانی کی پیمائش کے حتمی اعداد و شمار کا بھی جائزہ لیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ اور پنجاب نے پانی بہاؤ کے معاملے پر پیچھے ہٹنے سے انکار کردیا

پنجاب کے اعداد و شمار کے مطابق تونسہ بیراج پر 25 ہزار کیوسک پانی کی ضرورت ہے لیکن وہاں 72 فیصد کمی کا سامان ہے کیونکہ تونسہ میں صرف 7 ہزار کیوسک پانی موجود ہے۔ اسی طرح پنجند بیراج پر 65 فیصد اور تریمو بیراج پر 20 فیصد کمی ہے۔

محکمہ آبپاشی پنجاب کے ترجمان کا کہنا ہے کہ جنوبی پنجاب کو سیراب کرنے والی لوئر بہاول کینال کو 36 فیصد پانی کی کمی کا سامنا ہے کیونکہ اسے 5 ہزار کیوسک پانی کی ضرورت کے برعکس 3 ہزار 200 کیوسک پانی فراہم کیا جا رہا ہے۔

اس کے علاوہ ضلع لودھراں کے لیے میلسی کینال میں پانی کی آمد ضرورت سے 46 فیصد کم ہے جبکہ سلیمانکی بیراج سے منسلک نہری نظام کو 32 فیصد کمی کا سامنا ہے اور اسلام بیراج 60 فیصد کمی کا سامنا کر رہا ہے۔

ارسا کے اعلان کے مطابق 23 مئی کے بعد سے تربیلا ڈیم، جو کہ سندھ کو پانی کی فراہمی کا بنیادی ذریعہ ہے، 1398 فٹ پانی کے ساتھ ڈیڈ لیول پر پہنچ گیا تھا۔

مزید پڑھیں: سندھ: پانی کی قلت سے تباہ کن حالات

جیسے ہی پانی کی کمی نے اپنا اثر دکھانا شروع کیا تو سندھ کے بیراجوں میں فیصد کے لحاظ سے پانی کی کمی بتدریج بڑھنے لگی اور 29 مئی کو اپنی کم ترین سطح پر آگئی تھی۔

دریا کے بہاؤ کی نگرانی کرنے والوں کا کہنا ہے کہ تربیلا میں 19 مئی کو سب سے زیادہ ایک لاکھ 5 ہزار کیوسک پانی کا اخراج ریکارڈ کیا گیا تھا لیکن اس کا اخراج 27 مئی کو 54 ہزار کیوسک تک آگیا۔

اسی طرح دریائے کابل میں بہاؤ جو کہ دریائے سندھ میں پانی کو بڑھاتا ہے، 27مئی کو 18 ہزار 500 کیوسک تک گرنا شروع ہوا جو کہ گزشتہ ماہ زیادہ سے زیادہ 36,900 کیوسک تک تھا۔

دوسری جانب سکھر اور کوٹری بیراج میں بھی پانی کی سنگین قلت موجود جو تقریباً جون کے وسط تک جاری رہنے کا امکان ہے۔

گدو بیراج میں بلوچستان کے حصے کے لحاظ سے قلت 50.3 فیصد اور سکھر بیراج میں 65.2 فیصد بتائی گئی ہے۔

بالائی علاقوں میں درجہ حرارت میں تبدیلی جاری ہے، 18 مئی کو درجہ حرارت 28.9 ڈگری تک بڑھنے کے بعد 2 جون کو 19.4 ڈگری سیلسیس تک گر گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: آبپاشی کیلئے پانی کی قلت 45 فیصد تک پہنچ گئی، اِرسا نے صوبوں کو خبردار کردیا

پانی کی قلت کے پیش نظر سندھ کے محکمہ آبپاشی نے بدھ کے روز ارسا کے چیئرمین کو پانی کی تقسیم میں ’تفاوت‘ کو دور کرنے اور اضافی بہاؤ کے لیے خط لکھا تھا۔

خط میں ارسا چیئرمین کی توجہ وزارت آبپاشی کے 23 مئی کو خریف سیزن میں یکم اپریل سے 20 مئی تک سندھ کی جانب پیدا ہونے والی قلت کے بارے میں جاری کردہ مراسلے کی جانب مبذول کرائی۔

جس میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ معاہدے کی بنیاد پر مختص کردہ پانی پنجاب سے 14 فیصد زیادہ ہے اور تین درجے فارمولے پر مبنی تقسیم کی شرائط کے حساب سے 9 فیصد زیادہ ہے۔

خط میں سندھ کو 10 جون سے پہلے اضافی پانی چھوڑنے کی درخواست کی گئی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں