صحافی عمران ریاض خان کی لاہور میں درج مقدمے میں بھی گرفتاری

اپ ڈیٹ 08 جولائ 2022
عمران ریاض خان کو اٹک میں درج مقدمے پر گرفتار کیا گیا تھا — فوٹو: ڈان نیوز
عمران ریاض خان کو اٹک میں درج مقدمے پر گرفتار کیا گیا تھا — فوٹو: ڈان نیوز

پنجاب پولیس کی جانب سے رواں ہفتے کے شروع میں گرفتار کیے گئے صحافی عمران ریاض خان کو لاہور میں درج ایک اور مقدمے میں گرفتار کرلیا گیا۔

عمران ریاض خان کے وکیل علی اشفاق نے بتایا کہ عمران ریاض خان کو پولیس نے لاہور میں درج مقدمے میں گرفتار کر لیا اور لاہور پولیس عمران ریاض خان کو لاہور لا رہی ہے۔

مزید پڑھیں: صحافی عمران ریاض کو دوبارہ آج ہی اٹک کی عدالت میں پیش کرنے کا حکم

انہوں نے کہا کہ عمران ریاض خان کو لاہور کی مقامی عدالت میں پیش کیا جائے گا۔

لاہور میں عمران ریاض خان کے خلاف سول لائن پولیس نے بغاوت کا مقدمہ درج کر رکھا ہے۔

عمران ریاض خان کی جانب سے ان کے وکلا میاں علی اشفاق اور رانا معروف عدالت میں پیش ہوں گے۔

لاہور پولیس نے عمران ریاض کو چکوال کی مقامی عدالت میں پیش کیا اور 3 روزہ ریمانڈ کی استدعا کی، تاہم عدالت نے ایک دن کا ریمانڈ منظور کیا۔

عدالت نے پولیس کو ہدایت کی کہ عمران ریاض کو متعلقہ علاقے کے جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے 9 جولائی کو پیش کریں۔

خیال رہے کہ عمران ریاض کو اٹک پولیس نے منگل کی رات اسلام آباد کے قریب سے حراست میں لیا تھا، انہیں جمعرات کی صبح مقامی عدالت نے ریلیف دے دیا تھا لیکن یہ ریلیف بہت مختصر ثابت ہوا اور چکوال پولیس نے انہیں رہائی کے فوری بعد اٹک ڈسٹرکٹ جوڈیشل کمپلیکس سے گرفتار کر لیا تھا۔

جج تنویر نے فیصلہ رات 3 بجے محفوظ کیا تھا اور صبح سویرے 4 بجے کے قریب سنایا گیا، جج نے فیصلہ سناتے ہوئے اینکر پرسن عمران ریاض کے خلاف غداری کا مقدمہ خارج کر دیا تھا اور ناکافی شواہد کی بنا پر انہیں رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: عمران ریاض کی گرفتاری پر سینیٹ کمیٹیوں کا نوٹس، رپورٹ طلب

جج نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ عمران ریاض کو چکوال پولیس کے حوالے نہیں کیا جا سکتا لیکن جیسے ہی عمران ریاض اپنی رہائی کے بعد کمرہ عدالت سے باہر نکلے تو انہوں نے رضاکارانہ طور پر خود کو انتظار کرنے والی پولیس پارٹی کے حوالے کر دیا جس نے بعد میں انہیں چکوال کے ایک پولیس اسٹیشن منتقل کر دیا۔

حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ اس مرحلے پر پوری فوٹیج دیکھنے اور معاملہ سننے کے بعد پتا چلا کہ عدالت میں موجود ملزم نے کوئی نازیبا ریمارکس یا کوئی توہین آمیز لفظ استعمال نہیں کیا جس سے یہ کہا جا سکے کہ ملزم نے ایف آئی آر میں درج کردہ جرائم کا ارتکاب کیا۔

جج نے فیصلے میں مزید کہا کہ پولیس سختی سے مکمل طور پر قانونی طریقہ کار اپناتے ہوئے معاملے کی مزید تفتیش کر سکتی ہے۔

عمران ریاض کی گرفتاری

صحافی عمران ریاض خان کو منگل اور بدھ کی درمیانی شب اسلام آباد جاتے ہوئے اٹک میں درج بغاوت کے مقدمے میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔

عمران ریاض خان کے وکیل میاں علی اشفاق بتایا تھا کہ عمران ریاض خان کے خلاف پنجاب بھر میں 17 بغاوت کے مقدمات درج کیے گئے ہیں۔

وکیل نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کے مؤکل کو اسلام آباد کی حدود سے گرفتار کیا گیا جو ہائی کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی ہے، اس کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کر رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: گرفتار صحافی عمران ریاض اٹک جیل سے چکوال جیل منتقل

بعد ازاں رات گئے اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران ریاض خان کی گرفتاری پر دائر توہین عدالت کی درخواست پر آئی جی اسلام آباد کی جانب سے مجاز افسر کو صبح 10 بجے طلب کر لیا تھا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے درخواست نمٹاتے ہوئے کہا تھا کہ ہر عدالت کا اپنا دائرہ اختیار ہے، لاہور ہائی کورٹ اس معاملے کو دیکھ سکتی ہے، عمران ریاض خان کی گرفتاری اٹک میں ہوئی جو اس عدالت کا دائرہ اختیار نہیں بنتا، یہ کورٹ پنجاب کی تفتیش نہیں کر سکتی۔

پولیس نے عمران ریاض کو اٹک کی مقامی عدالت میں پیش کیا گیا جہاں جج نے کہا کہ پیکا دفعات ہیں، ایف آئی آر میں کیس کیسے سن سکتا ہوں اور انہیں راولپنڈی جوڈیشل کمپلیکس کے اسپیشل مجسٹریٹ پرویز خان کی عدالت میں پیش کیا گیا جہاں جج نے عمران ریاض کو دوبارہ آج ہی اٹک کی مقامی عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا۔

اسپیشل مجسٹریٹ پرویز خان نے ریمارکس دیے کہ یہ کیس میری عدالت میں نہیں بنتا، میں ایف آئی اے کا جج ہوں اور حکم دیا کہ اور ایف آئی اے کی دفعات ختم کی جائیں۔

عدالت نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے ایف آئی اے کی دفعات بھی ختم کرنے کا حکم دیا۔

اٹک کی مقامی عدالت کے جج تنویر نے رات 3 بجے محفوظ کیا اور صبح 4 بجے کے قریب سنایا اور عمران ریاض کی فوری رہائی کا حکم دیا تھا جبکہ وکلا کا کہنا تھا کہ اتنی صبح فیصلے کا اعلان اٹک کی عدالتی تاریخ کا پہلا فیصلہ ہے۔

فیصلے میں کہا گیا تھا کہ اس وقت موجودہ کیس میں ثبوت ناکافی ہیں جو ملزم عمران ریاض کو مجرم ثابت کرسکیں، جیسا کہ کرائم رپورٹ میں درج ہے، اس لیے ملزم عمران ریاض خان کو کیس سے بری کیا جاتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں