پنجاب: ضمنی انتخابات کے سلسلے میں لاہور میں جوش و خروش کا فقدان

اپ ڈیٹ 16 جولائ 2022
سیاسی مبصرین نے کل کے انتخاب میں کم ٹرن آؤٹ کی پیش گوئی کی ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی
سیاسی مبصرین نے کل کے انتخاب میں کم ٹرن آؤٹ کی پیش گوئی کی ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی

پنجاب میں ہونے والے انتہائی اہم ضمنی انتخابات کے سلسلے میں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان روایتی انتخابی میدان لاہور میں کچھ گڑبڑ رہی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ضمنی انتخابات کے لیے مہم جمعے کی رات ختم ہوئی جس میں مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی دونوں نے اپنے کارکنوں پر زور دیا کہ وہ پولنگ والے دن (کل) ووٹرز کو گھروں سے باہر لانے میں اپنی توانائیاں صرف کریں۔

تاہم ایسے میں جب کہ دونوں حریف جماعتوں کی سینئر قیادت نے تقریباً تمام 20 حلقوں میں زبردست عوامی جلسے کیے، لاہور کے 4 حلقوں میں مسلم لیگ (ن) کے ووٹرز کو نکالنے کے لیے روایتی گھر گھر مہم اور کارکنوں کی کارنر میٹنگز میں ان کی غیر موجودگی نمایاں تھی۔

یہ بھی پڑھیں: پنجاب کے ضمنی انتخابات کی دلچسپ صورتحال پر ایک نظر

مسلم لیگ (ن) کے کچھ کارکنان جن سے ڈان نے لاہور کے ان حلقوں میں بات کی، قیادت کی جانب سے پی ٹی آئی سے منحرف ہونے والوں کو پارٹی ٹکٹ الاٹ کرنے کے فیصلے کا حوالہ دیا جس سے پارٹی کے بنیادی کارکنوں کو ٹھیس پہنچی اور ان کے حوصلے کو نقصان پہنچا اور انہوں نے مہم میں بھرپور طریقے سے حصہ نہیں لیا۔

حلقہ پی پی-158، 167، 168 اور 170کے بعض علاقوں کا دورہ کئی سڑکوں پر پوسٹرز، بینرز اور فلیکسز کے حوالے سے 'جارحانہ انتخابی مہم' کا مظاہرہ کرتا ہے لیکن مقامی لوگوں میں ایک الیکشن سے قبل پایا جانے والا جوش و خروش غائب پایا گیا۔

واپڈا ٹاؤن کے رہائشی ابرار احمد کا کہنا تھا کہ میں اتوار کے ضمنی انتخاب میں کسی پارٹی کو ووٹ دینے میں دلچسپی نہیں رکھتا، ہم پی ٹی آئی حکومت کی جانب کی گئی مہنگائی کے بوجھ تلے دب گئے تھے اور اب تین ماہ میں مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں اتحاد بے نقاب ہو گیا ہے کیونکہ اس نے عوام کے لیے روزمرہ استعمال کی تقریباً ہر استعمال کی اشیاکی قیمتوں میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ دونوں اطراف کے سیاست دان لوگوں کی زندگیوں کے بارے میں دلچسپی یا فکر مند نظر نہیں آتے اس لیے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کون جیتا، کیونکہ عوام کی حالت زار ٹھیک ہونے والی نہیں ہے۔

مزید پڑھیں: نالائق کی حکومت رہتی تو وہ لاہور کو بھی کھنڈر بنا دیتا، مریم نواز

سیاسی مبصرین نے کل کم ٹرن آؤٹ کی پیش گوئی کی ہے جبکہ مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کے درمیان ضمنی انتخابات میں کلین سویپ کے دعوے کے ساتھ انتہائی سخت مقابلہ متوقع ہے۔

2018 کے عام انتخابات کے فوراً بعد ہونے والے ضمنی انتخابات میں انتہائی مقبول ہونے والے بیانیے 'ووٹ کو عزت دو' کے برعکس شریف خاندان کی پارٹی نے اس بار ایک نیا نعرہ 'خدمت کو ووٹ دو' (ووٹ دو عوام کی خدمت کے لیے) متعارف کرایا۔

مسلم لیگ (ن) کے حلقوں نے پارٹی کے نئے بیانیے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ سابقہ نعرے کا مقصد اختیارات کا حصول تھا۔

انہوں نے کہا کہ چونکہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ایک مرتبہ پھر ہمارے تعلقات اچھے ہیں تو ہمیں اب اس بیانیے کی ضرورت نہیں ہے اور اس کی جگہ 'خدمت کو ووٹ دو' نے لے لی ہے جو لوگوں کی خدمت کے ہمارے ماضی کے ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے ایک سیاسی اپیل ہے۔

دوسری جانب عمران خان کی پی ٹی آئی اپنے ووٹروں کو لبھانے کے لیے پارٹی کے منحرف ہونے والے اراکین کو نشانہ بنا رہی ہے، جنہیں وہ لوٹا کہتے ہیں اور جو اب مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر یہ انتخابات لڑ رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: آرٹیکل 6 لگاؤ، بتانے کا موقع ملے گا کہ کس نے ملک سے کس قسم کی غداری کی، عمران خان

دلچسپ بات یہ ہے کہ لاہور میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے 4 مشترکہ امیدواروں میں سے 3، چوہدری امین ذوالقرنین (پی پی-170)، نذیر چوہان (پی پی-167) اور اسد کھوکھر (پی پی-168)، پی ٹی آئی کے منحرف اراکین تھے، جنہوں نے وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب میں حمزہ شہباز کو ووٹ دیا چوتھا امیدوار مسلم لیگ ن کا رکن ہے۔

تاہم سیاسی کارکن اور ووٹرز زیادہ پرجوش نہیں، اپر مال کی بستی سیدن شاہ کے رہائشی محمد یونس نے کہا کہ اس وقت ہم سیاست سے بیزار ہیں، بے لگام مہنگائی کی وجہ سے ہماری زندگی اجیرن ہو گئی ہے اور سیاست دونوں کو اپنے معاملات کی فکر ہے'۔

نواز شریف نے انتخابی مہم کی نگرانی کی

مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف لندن سے ضمنی انتخاب کی مہم کی نگرانی کر رہے تھے۔

پارٹی کے اندرونی ذرائع کے مطابق نواز شریف کی ہدایت پر 4 وفاقی اور صوبائی وزرا نے پارٹی امیدواروں کی مہم کے لیے استعفیٰ دے دیا تھا۔

اس کے علاوہ پنجاب کے 20 حلقوں میں سے ہر ایک میں کم از کم 8 ایم پی اے اور 4 ایم این ایز کو پارٹی قائد کی جانب سے مہم کی مؤثر قیادت کرنے کا ٹاسک دیا گیا تھا۔

ان قانون سازوں سے کہا گیا کہ وہ وزیراعلیٰ حمزہ شہباز کی مدد سے اپنے امیدواروں کے مسائل کو ’حل‘ کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ پارٹی کے ناراض کارکنوں کو مطمئن کیا جائے اور اتحادی جماعت پیپلز پارٹی پر مکمل تعاون کے لیے زور دیا جائے۔

پیپلز پارٹی کی تاخیر سے انٹری

پی پی پی کی مقامی قیادت خاص طور پر لاہور میں جمعے کی رات کو انتخابی مہم ختم ہونے سے چند روز قبل مبینہ طور پر اس وقت بیدار ہوئی جب نواز شریف نے پی پی پی کے رہنما آصف علی زرداری سے درخواست کی کہ وہ اپنی پارٹی کے دستے مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کی حمایت کے لیے بھیجیں۔

پی پی پی کے کارکنان اور رہنما مبینہ طور پر شریفوں کی پارٹی سے نظریاتی اختلافات کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کی مہم سے دور رہے۔

تاہم چونکہ مسلم لیگ (ن) وزیراعلیٰ کا عہدہ کھونے کی متحمل نہیں ہو سکتی تھی اس لیے اس کی اعلیٰ قیادت نے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ پی پی پی کے رہنما اور کارکنان اپنے مشترکہ امیدواروں کے لیے انتخابی مہم چلائیں آصف زرداری کو مداخلت کرنے پر مجبور کیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں