قیمتوں میں اضافے کی نئی لہر سے صارفین کو خطرہ

اپ ڈیٹ 17 جولائ 2022
جنرل سیکریٹری کراچی ریٹیل گروسرز گروپ فرید قریشی نے کہا حکومت کو قیمتوں میں اضافے کی وجوہات کا جائزہ لینا چاہیے — فائل فوٹو: شہاب نفیس
جنرل سیکریٹری کراچی ریٹیل گروسرز گروپ فرید قریشی نے کہا حکومت کو قیمتوں میں اضافے کی وجوہات کا جائزہ لینا چاہیے — فائل فوٹو: شہاب نفیس

ڈیزل کی قیمت میں کمی کے باعث نقل و حمل کی لاگت میں کمی کے باوجود اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافے کی نئی لہر دیکھی جارہی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق 'ملک پاک' بنانے والی کمپنی نیسلے پاکستان لمیٹڈ (این پی ایل) اور 'اولپرز' بنانے والی کمپنی فریزلینڈ کیمپینا اینگرو پاکستان لمیٹڈ نے لیٹر پیک کی قیمت میں 20 روپے اضافے کا اعلان کیا ہے جس کے بعد ان کمپنیوں کے ایک لیٹر دودھ کی قیمت 200 روپے تک ہوگئی ہے۔

ان کمپنیوں کی جانب سے ریٹیل دکانداروں کو فراہم کردہ لیٹر میں قیمت میں اضافے کی کسی وجہ کا حوالہ نہیں دیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: ملک میں مہنگائی کی شرح 15 فیصد سے تجاوز کرجانے کا اندیشہ

اضافے کے بعد اولپرز 250 ملی لیٹر ٹیٹرا پیک اور پاؤچ کی قیمت اب 50 روپے کے بجائے 55 روپے ہوگئی ہے۔

رابطہ کرنے پر نیسلے پاکستان لمیٹڈ کے ایک افسر نے قیمتوں میں اضافے کی وجہ بڑھتی ہوئی عمومی مہنگائی کو قرار دیا۔

دوسری جانب پاکستان ڈیری ایسوسی ایشن (پی ڈی اے) کے عہدیدار نے کہا کہ ایسوسی ایشن قیمتوں میں اضافے پر کوئی تبصرہ نہیں کر سکتی اور صرف متعلقہ کمپنیاں ہی اس بارے میں جواب دے سکتی ہیں۔

بیک پارلر اور اشرفی برانڈڈ آٹے کا 5 اور 10 کلو کا جو تھیلا عیدالاضحیٰ سے قبل 490 اور 960 روپے میں فروخت کیا جا رہا تھا، اب ان کی قیمت 540 سے 550 اور ایک ہزار 50 روپے سے بڑھ کر 1100 روپے ہوگئی ہے، ریٹیل دکانداروں نے قیمتوں میں اضافے کا ذمہ دار متعلقہ کمپنیوں کو ٹھہرایا ہے۔

مزید پڑھیں: مہنگائی کی شرح ڈھائی سال کی بلند ترین سطح 13.76 فیصد پر پہنچ گئی

جون کے تیسرے ہفتے میں سندھ کے فلور ملرز نے مختلف اقسام کے آٹے کی قیمتوں میں 6 روپے فی کلو تک اضافہ کیا جس کے بعد 10 کلو کا تھیلا 785 روپے سے بڑھ کر 885 روپے تک کا ہوگیا۔

جنرل سیکریٹری کراچی ریٹیل گروسرز گروپ (کے آر جی جی) فرید قریشی کا کہنا ہے کہ چکی کے آٹے کا ریٹ اب 100 روپے فی کلو کے بجائے 105 سے 110 روپے کے درمیان ہے۔

فرید قریشی نے مزید کہا کہ بسکٹ بنانے والی کئی کمپنیوں نے ریٹ 25 روپے سے بڑھا کر 30 روپے کر دیے ہیں جبکہ 5 روپے والے پیکٹ کی قیمت اب 7 روپے کردی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بعض کمپنیوں نے پیکٹ میں بسکٹ کی تعداد 4 سے کم کر کے 3 کر دی ہے اور اس طرح قیمت کو 10 روپے تک برقرار رکھا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: نئی حکومت کا پہلا مہینہ، مہنگائی 27 ماہ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی

ان کا مزید کہنا تھا کہ بہت سی کمپنیوں نے نئی قیمتوں کے ساتھ اسٹاک جاری کرنے کے لیے بسکٹ کی سپلائی کم کردی ہے، فرید قریشی نے کہا کہ سافٹ ڈرنک بنانے والی کمپنیوں نے بھی نرخوں میں 10 روپے تک کا اضافہ کر دیا ہے۔

500 ملی لیٹر کی بوتل اب 70 روپے میں فروخت کی جارہی ہے جبکہ لیٹر اور 1.5 لیٹر کی بوتلیں 100 اور 130 روپے میں فروخت کی جارہی ہیں جو کہ اس سے قبل 90 اور 120 روپے کی تھیں۔

فرید قریشی نے قیمتوں میں اضافے کی وجوہات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ اشیا بنانے والی کمپنیاں ڈالر کے مقابلے روپے کی گرتی ہوئی قیمت کی وجہ سے درآمدی خام مال پر بڑھنے والی نقل و حمل، پیکنگ کی لاگت اور دیگر اخراجات صارفین کو منتقل کر رہی ہیں۔

انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ کمپنیوں کے زیادہ پیداواری لاگت کے دعووں کی جانچ کرے جن کا بوجھ صارفین پر بے رحمی سے منتقل کیا جارہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ملک میں مہنگائی دو سال کی بلند ترین سطح 12.96 فیصد تک پہنچ گئی

عید سے قبل پیاز کی قیمت 80 روپے فی کلو تھی جو بڑھ کر 90 روپے سے 100 روپے فی کلو ہوگئی ہے، عید سے قبل 80 سے 100 روپے فی کلو میں فروخت ہونے والی ترائی اور لوکی کی قیمت 200 روپے فی کلو تک ہوگئی ہے۔

عید کی تعطیلات کے دوران دکانداروں نے شملہ مرچ 400 روپے تک میں فی کلو فروخت کی، اس کی قیمت اب کم ہو کر 200 روپے فی کلو تک ہوگئی ہے، جبکہ عید سے قبل اس کی فی کلو قیمت 160 روپے تھی، اسی طرح بھنڈی کی قیمت بھی 150 روپے فی کلو سے بڑھ کر 200 روپے فی کلو تک پہنچ گئی تھی جبکہ عید کے دنوں میں 160 روپے فی کلو فروخت ہونے والے ٹماٹر کی قیمت کم ہو کر 80 سے 100 روپے فی کلو تک پہنچ گئی ہے۔

عید کے دنوں میں ہری مرچیں 200 روپے فی 250 گرام فروخت کی گئیں جن کی قیمت اب کم ہو کر 60 روپے فی 250 گرام ہوگئی ہے۔

مزید پڑھیں: 12 ماہ کے وقفے کے بعد مہنگائی کی شرح دوبارہ دہرے ہندسوں تک جا پہنچی

فلاحی انجمن ہول سیل سبزی منڈی سپر ہائی وے کے صدر حاجی شاہجہان نے قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کی وجہ سندھ اور بلوچستان میں ہونے والی شدید بارشوں کے باعث طلب اور رسد کے فرق کو قرار دیا کیونکہ کراچی میں مٹر کے علاوہ کوئی سبزی نہیں ہوتی۔

حاجی شاہجہان کا کہنا ہے کہ حکومت کے پاس مختلف محکمے ہیں لیکن بارش اور سیلاب کی وجہ سے پیدا ہونے والی کسی بھی ہنگامی صورت حال میں قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے سپلائی چین کو مؤثر طریقے سے برقرار رکھنے کے لیے کوئی مربوط و منظم حکمت عملی نہیں ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں