اداروں کی مداخلت اور سیاست سے ریاست کمزور ہورہی ہے، مولانا فضل الرحمٰن

اپ ڈیٹ 24 جولائ 2022
ان کا کہنا تھا کہ کل ہم بطور جماعت اس کیس میں فریق بنیں گے— فوٹو: ڈان نیوز
ان کا کہنا تھا کہ کل ہم بطور جماعت اس کیس میں فریق بنیں گے— فوٹو: ڈان نیوز

جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ ریاست کمزور ہورہی ہے، کسی بیرونی دشمن کے ہاتھ نہیں بلکہ ہمارے اپنے اداروں کی مداخلت اور سیاست کی وجہ سے ہو رہی ہے، حکومت کو حکومت کرنے دیں، حکومت نے چیلنج کے طور پر اس نظام کو قبول کیا ہوا ہے۔

نیوز کانفرنس کرتے ہوئے پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل کا کہنا تھا کہ آئینی اور قانونی ماہرین کو ہدایات جاری کر دی ہیں تاکہ وہ اس حوالے سے عدالت کو درخواست دے سکیں، پاکستان کی دستور سازی سے لے کر دستور کی بقا کے لیے اپنے اکابر سے ورثے میں ملی ہے، آج بھی اس نازک موقع پر اپنے فرض کی تکمیل کے لیے فرنٹ لائن پر اپنا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ عجیب عجیب نئی نئی باتیں، عدالتی ماحول اور ان فضاؤں سے اٹھتی ہیں، عام آدمی کے کانوں میں پڑتی ہیں، انہیں اس پر تعجب ہو رہا ہے، ماضی میں جو فیصلے کیے گئے، وہاں کہیں بھی یہ سوال نہیں اٹھایا گیا، پارٹی لیڈر ہی پارٹی کے فیصلوں کا آخری اختیار رکھتا ہے، پوری دنیا کا نظام یہی ہے کہ کسی بھی ادارے یا پارٹی کا سربراہ، حکومت کا سربراہ ہی آخری اور فیصلہ کن قوت ہوتی ہے، باقی اس کے ماتحت ہوتے ہیں، تجویز دے سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: 63 اے سے متعلق کیسز، حکومتی اتحاد کا فل کورٹ کی تشکیل کیلئے سپریم کورٹ جانے کا فیصلہ

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ آج یہ نئی بحث چھیڑ دی گئی ہے کہ پارلیمانی پارٹی کا فیصلہ یا پارٹی کے سربراہ کا فیصلہ، پارلیمان کے اندر بعض اوقات پارٹی کا سربراہ پارلیمنٹ کا بھی ممبر ہوتا ہے اور پارلیمانی سربراہ بھی ہوا کرتا ہے، یہ بھی ہوتا ہے کہ پارٹی کا سربراہ پارلیمان سےباہر ہے، پارلیمانی پارٹی پارلیمان کے اندر ہوتی ہے لیکن وہ پارٹی کے نظم کے ماتحت کہلاتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کے اندر چھوٹے بڑے معاملات پارلیمانی پارٹی طے کرتی ہے لیکن بعض اہم فیصلوں پارٹی قیادت ہی انہیں ہدایت جاری کرتی ہے، ایک بڑی واضح بات کو اور ایک معروف معاملے کو نظمی مسئلہ بنا دیا گیا، آج اس پر بحث ہو رہی ہے، پرویز الہٰی کے صاحبزادے مونس الہٰی نے چوہدری شجاعت حسین کی جانب سے لکھے گئے لیٹر کے بعد خود اعلان کر دیا کہ اب ہم ہار چکے۔

‘سپریم کورٹ سے متفقہ مطالبہ ہے کہ فل کورٹ سماعت کرے’

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ تعجب ہے کہ پاکستان کی عدالت عظمٰی اس بات پر بحث کررہی ہے کہ ہمیں مسئلہ سمجھ نہیں آرہا، ہمیں مسئلے کو سمجھنا ہے، یہ چیزیں ایک دانشور کے لیے قابل قبول نہیں ہوسکتیں، اسی لیے یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ یہ کیس اس وقت تین رکنی بینچ کے زیر سماعت ہے، یہ سپریم کورٹ کا فُل کورٹ سنے، تمام ججز سپریم کورٹ کے یہ ہمارا متفقہ مطالبہ ہے، پورے حکومتی اتحاد کا مطالبہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ عدالت کا وقار بحال رہے اور ان کے فیصلوں کو ہر شخص دل و جان سے قبول کرے، تین یا پانچ ججوں کا فیصلہ انصاف کے حوالے سے لوگوں کے لیے قابل قبول نہیں ہو سکے گا۔

مزید پڑھیں: حکومت سے کہا ہے عمران خان کو مقدمات میں گرفتار کرے، مولانا فضل الرحمٰن

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ریاست کمزور ہورہی ہے، کسی بیرونی دشمن کے ہاتھ نہیں بلکہ ہمارے اپنے اداروں کی مداخلت اور سیاست کی وجہ سے ہورہی ہے، حکومت کو حکومت کرنے دیں، حکومت نے چیلنج کے طور پر اس نظام کو قبول کیا ہوا ہے، چار سالہ غلاظتیں قوم کے اوپر کوہ گراں بن کر جب یہ لوگ مسلط رہے۔

ان کا کہنا تھا کہ آج جب اس سے جاں خلاصی ہوئی ہے تو ان ساری مشکلات سے نکلنا ایک چیلنج ہے لیکن مداخلت کے نتیجے میں حکومتی نظام مسترد رہتا ہے تو مالیاتی اور انتظامی ادارے بھی کام نہیں کریں گے اور عام آدمی بھی اپنے گھر میں پریشان رہے گا، اس طرح ریاست کمزور ہوتی ہے۔

جے یو آئی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ہمارے اداروں میں یقیناً کچھ افراد ایسے ہیں، ریٹائرمنٹ کے بعد وہ بے نقاب ہو جاتے ہیں جبکہ وہ دورانِ ملازمت پارٹی کے ساتھ وابستگی رکھتے ہیں، پی ٹی آئی کے ساتھ وابستگی رکھ رہے ہیں، ان کو یہی مشورہ دوں گا کہ آپ دوران ملازمت ایک جماعت کے لیے ادارے کو استعمال مت کریں، مستعفی ہو کر میدان میں آکر مقابلہ کریں۔

انہوں نے کہا کہ ادارے اس ملک پر رحم کریں، اپنی طاقت دکھانا، اپنی بالادستی دکھانا اور اس خواہش میں رہنا یہ شاید ملک کو نقصان پہنچا رہا ہے۔

مزید پڑھیں: آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے سپریم کورٹ کا فل کورٹ سماعت کرے، وفاقی وزیر قانون

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ جہاں تک عمران خان کی سیاست کا تعلق ہے، اس کی پوری سیاسی زندگی ایک جھوٹے بیانیے پر کھڑی رہی، اس کا نہ کوئی مستقل نظریہ ہے، نہ کوئی مستقل عقیدہ ہے، آئے روز ان کا بیانیہ تبدیل ہوتا رہتا ہے اور اس کی ڈفلی پر کچھ لڑکے، لڑکیاں ناچتی رہتی ہیں، پاکستان میں اس کو سیاست کہا جارہا ہے۔

‘پاکستان میں شرافت، وقار اور نظریے کی سیاست کہاں گئی’

انہوں نے سوال اٹھایا کہ پاکستان میں شرافت کی سیاست، وقار کی سیاست، نظریے کی سیاست کہاں گئی، میرے نزدیک اگر اس کی کوئی مستقل حیثیت ہے تو وہ ایک ہی ہے، جو ہم نے پہلے دن سے کہا ہے کہ بیرونی قوتوں کی ہدایات اور ان کی خواہشات اور ان کی دولت کی پشت پناہی میں بطور مشنری پاکستان میں کام کرنا، ان کا مشن کیا ہے ریاست کو اور ریاست کے نظریے کو تباہ کرنا۔

‘بھرپور جنگ لڑنے کے لیے تیار ہیں’

ان کا کہنا تھا کہ ہم ایک بھرپور جنگ لڑنے کے لیے تیار ہیں، یہ ملک کی بقا، عزت و احترام کا سوال ہے، بین الاقوامی ممالک کے ساتھ ہم نے برابر کی حیثیت میں چلنا ہے لیکن ہمیں کمزور کیا جارہا ہے، کشمیر اور گلگت بلتستان ہمارے ہاتھ میں نہیں رہا ہے، ان اصولوں کی خلاف وزری کررہے ہیں جن کے تحت بھارت کو 74 سال تک ذمہ دار دیتے رہے ہیں۔

مولانا فضل الرحمٰن نے سوال اٹھایا کہ عمران خان کو کون تحفظ دے رہا ہے، کیوں ادارے اپنا فرض سر انجام نہیں دے رہے بلا وجہ ایک شخص کو سہارا دے رہے ہیں، یہ چیزیں تشویش کا باعث ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کل ہم بطور جماعت اس کیس میں فریق بنیں گے، آئینی ماہرین درخواست جمع کریں گے، فل کورٹ کا مطالبہ کررہے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں