'رواں مالی سال میں پاکستان کی مالیاتی ضروریات پوری ہوجائیں گی'

اپ ڈیٹ 01 اگست 2022
اسٹیٹ بینک اور وزارت خزانہ نے کہا کہ آئی ایم ایف سے رقم ملنے کے ساتھ ساتھ دوست ممالک سے 4 ارب ڈالر کاانتظام بھی کیا جائے گا — فائل فوٹو: اے پی پی
اسٹیٹ بینک اور وزارت خزانہ نے کہا کہ آئی ایم ایف سے رقم ملنے کے ساتھ ساتھ دوست ممالک سے 4 ارب ڈالر کاانتظام بھی کیا جائے گا — فائل فوٹو: اے پی پی

اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور وزارت خزانہ نے کہا ہے کہ رواں مالی سال میں پاکستان کی مجموعی مالیاتی ضروریات عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے جاری پروگرام کے تحت مکمل طریقے سے پوری ہوں گی جبکہ 4 ارب ڈالر کی اضافی رقم کا انتظام بھی کیا جائے گا۔

اتوار کو جاری ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ ملک کی فنانسنگ کی ضروریات 10 ارب ڈالر کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے ساتھ ساتھ تقریباً 24 ارب ڈالر کے بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں سے پیدا ہوئی ہیں۔

مزید پڑھیں: دو روز کے دوران اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قدر میں 10 روپے تک کی کمی

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کی پوزیشن کو مضبوط کرنے کے لیے پاکستان کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ ان ضروریات کے مقابلے میں قدرے زیادہ مالی اعانت فراہم کرے، نتیجتاً آئی ایم ایف کی طرف سے آنے والے ہفتوں میں 1.2 ارب ڈالر کی قسط جاری ہونے کی توقع کے علاوہ دوست ممالک سمیت متعدد مختلف چینلز کے ذریعے 4 ارب ڈالر کی فنڈنگ کا اہتمام کیا جارہا ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ پاکستان کے مسائل عارضی ہیں اور انہیں زبردستی حل کیا جارہا ہے، ان مسائل کو اجاگر کرتے ہوئے اسٹیٹ بینک اور وزارت خزانہ نے نوٹ کیا کہ ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر فروری کے بعد سے گرے تھے کیونکہ ملک سے باہر جانے والی رقم ملک میں آنے والی رقم سے تجاوز کر گئی ہے جبکہ شرح مبادلہ دباؤ میں ہے۔

آئی ایم ایف پروگرام کے اگلے جائزے کو مکمل کرنے میں تاخیر کی وجہ سے رقوم میں بڑی حد تک کمی واقع ہوئی ہے۔

دوسری جانب شرح تبادلہ خاص طور پر جون کے وسط سے امریکی ڈالر کی کمی، بڑھتے ہوئے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے، گرتے ہوئے ذخائر اور آئی ایم ایف معاہدے میں تاخیر اور ملکی سیاست کی وجہ سے دباؤ میں ہے۔

یہ بھی پڑھیں: آئی ایم ایف قرض کے اجرا کا عمل رواں ہفتے شروع ہونے کا امکان

انہوں نے نشاندہی کی کہ آئی ایم ایف کے ساتھ عملے کی سطح کا معاہدہ گزشتہ ماہ طے پایا تھا جبکہ حکمراں اتحاد نے بھی اپنی مدت پوری کرنے کا اعلان کیا ہے۔

کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ

کرنٹ اکاؤنٹ خسارے پر قابو پانے کے لیے کیے گئے اقدامات کی تفصیل بتاتے ہوئے اسٹیٹ بینک اور وزارت خزانہ نے کہا کہ پالیسی ریٹ میں 800 بیسس پوائنٹس کا اضافہ کیا گیا، توانائی کے سبسڈی پیکج کو تبدیل کیا گیا اور مالی سال 23 کے بجٹ میں جی ڈی پی کے تقریباً 2.5 فیصد حاصل کرنے کا ہدف رکھا گیا ہے جس کے تحت کمزور طبقے کا تحفظ کرتے ہوئے ٹیکس میں اضافے پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس سے ایندھن اور بجلی سمیت گھریلو طلب کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔

انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ آٹوموبائل، فون اور مشینری درآمد کرنے سے پہلے پیشگی منظوری کی ضرورت سمیت عارضی اقدامات بھی کیے گئے ہیں، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم ہونے پر پابندی میں نرمی کی جائے گی۔

مزید پڑھیں: پیٹرول 3.05 روپے سستا، ڈیزل 8.95 روپے مہنگا کرنے کا اعلان

بیان میں کہا گیا کہ یہ اقدامات کام کر رہے ہیں، جولائی میں درآمدی بل میں نمایاں کمی آئی کیونکہ توانائی کی درآمدات میں کمی آئی ہے اور غیر توانائی کی درآمدات اعتدال کی طرف جارہی ہیں۔

بیان کے مطابق تیل اور غیر تیل دونوں اشیا کے لیے لیٹر آف کریڈٹ (ایلسی) جاری کرنے کے حوالے سے کافی سست روی دیکھی گئی۔

اس حوالے سے نوٹ کیا گیا کہ ماضی میں دستیاب دو سے چار ہفتوں کے مقابلے میں اس وقت ڈیزل اور فرنس آئل کا ذخیرہ بالترتیب پانچ اور آٹھ ہفتوں کے لیے کافی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ان رجحانات کے نتیجے میں درآمدی بل کم ہونے کا امکان ہے اور اگلے ایک سے 2 ماہ میں کم ایف ایکس ادائیگیوں کو خود کو زیادہ مضبوطی سے ظاہر کرنا شروع کر دینا چاہیے۔

روپے کی قدر میں اضافہ متوقع

اسٹیٹ بینک اور وزارت خزانہ نے نوٹ کیا کہ دسمبر 2021 سے روپے کی قدر میں اضافے میں سے تقریباً نصف کا تعلق ڈالر کی قدر میں عالمی اضافے سے تھا جبکہ باقی نصف کا تعلق بڑھتے ہوئے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے سمیت ملکی عوامل سے تھا۔

یہ بھی پڑھیں: گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافے سے سرمایہ کار فائدہ اٹھانے میں مصروف

ان کا کہنا تھا کہ بقیہ گراوٹ میں دیگر عوامل کارفرما رہے، ملکی سیاست اور آئی ایم ایف پروگرام سے متعلق خدشات کی وجہ سے روپے کی قدر تیزی سے گری تاہم اب اس غیر یقینی صورتحال کو حل کیا جا رہا ہے۔

بیان میں اس سلسلے میں مرکزی بینک کے کردار کا ذکر کیا گیا جس کے بارے میں کہا گیا کہ اس نے ڈالر فروخت کرنے کے حوالے سے اس وقت قدم اٹھایا جب مارکیٹ میں بے ترتیبی عروج پر تھی اور بینکوں اور ایکسچینج کمپنیوں کی کڑی نگرانی اور معائنہ کرکے مارکیٹ میں جاری قیاس آرائیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اقدامات کیے۔

تبصرے (0) بند ہیں