جاوید اقبال کو لاپتا افراد کمیشن کی سربراہی سے روکنے کا فیصلہ معطل

اپ ڈیٹ 03 اگست 2022
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے سابق چیئرمین نیب کو کمیشن کی سربراہی سے روک دیا تھا— فائل فوٹو بشکریہ ریڈیو پاکستان
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے سابق چیئرمین نیب کو کمیشن کی سربراہی سے روک دیا تھا— فائل فوٹو بشکریہ ریڈیو پاکستان

اسلام آباد ہائی کورٹ نے قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اس فیصلے کو معطل کر دیا جس میں گزشتہ ماہ قومی احتساب بیورو (نیب) کے سابق چیئرمین جاوید اقبال کو جبری گمشدگیوں سے متعلق انکوائری کمیشن کی سربراہی سے روک دیا گیا تھا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق منگل کو جاوید اقبال کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق نے اس معاملے پر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی، سیکریٹری داخلہ اور سیکریٹری برائے پارلیمانی امور سے بھی 11 اگست تک جواب طلب کرلیا۔

مزید پڑھیں: پی اے سی کی جسٹس جاوید اقبال کو لاپتا افراد کمیشن کی سربراہی سے ہٹانے کی سفارش

2011 میں اپنے قیام کے بعد سے لاپتا افراد کے تحقیقاتی کمیشن کی سربراہی جاوید اقبال کر رہے ہیں جبکہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے ان پر لگائے گئے سنگین الزامات کو دیکھتے ہوئے انہیں اس عہدے پر کام کرنے سے روک دیا تھا۔

کمیشن لاپتا افراد کا سراغ لگانے اور جبری گمشدگیوں میں ملوث پائے جانے والے افراد یا تنظیموں پر ذمہ داری کا تعین کرنے کے لیے تشکیل دیا گیا تھا۔

7 جولائی کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے طیبہ گل کی طرف سے دائر کی گئی ایک درخواست پر غور کیا تھا جس میں جاوید اقبال کے خلاف مبینہ طور پر جنسی طور پر ہراساں کرنے کے الزام میں کارروائی کا مطالبہ کیا گیا تھا، درخواست گزار نے اپنے الزام کی تصدیق کے لیے ویڈیو ثبوت کی موجودگی کا دعویٰ بھی کیا تھا۔

کمیٹی نے اپنے اجلاس میں یہ بھی مشاہدہ کیا کہ ایک ٹی وی شو میں ڈیفنس آف ہیومن رائٹس کی چیئرپرسن آمنہ مسعود جنجوعہ نے بھی جسٹس اقبال پر لاپتا افراد کی شریک حیات کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کا الزام لگایا تھا۔

کمیٹی نے مزید نوٹ کیا تھا کہ اس وقت جبری گمشدگیوں پر انکوائری کمیشن کی سربراہی کرنے والے نیب کے سابق چیئرمین پر ایک سنگین الزام لگایا گیا ہے لہٰذا انہیں ایسا عہدہ نہیں رکھنا چاہیے۔

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے اس معاملے پر وزیراعظم آفس سے رجوع کرنے کا بھی فیصلہ کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ایچ آر سی پی کا جسٹس (ر) جاوید اقبال کےخلاف الزامات کی تحقیقات کا مطالبہ

کمیشن کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق کمیشن کے قیام کے بعد سے لاپتا افراد میں سے صرف ایک تہائی ہی اپنے گھروں کو واپس آئے ہیں۔

اپنی درخواست میں جاوید اقبال کے وکیل نے استدلال کیا کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے پاس طیبہ گل کی درخواست پر غور اور ان کے مؤکل کو کمیشن کے چیئرمین کے عہدے پر رہنے سے روکنے کے لیے دائرہ اختیار کی کمی ہے۔

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا دائرہ کار

وکیل نے نشاندہی کی کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا مینڈیٹ آڈٹ رپورٹس اور وزارتوں کی مالی بے ضابطگیوں کا جائزہ لینا تھا جو آئین کے آرٹیکل 67 کے تحت قومی اسمبلی میں قواعد و ضوابط کے قواعد 198، 201(5)، 202 اور 203 کے تحت بنائے گئے تھے۔

انہوں نے ہائی کورٹ سے استدعا کی کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی ہدایات کو قواعد سے متصادم ہونے کی وجہ سے کالعدم قرار دیا جائے۔

جاوید اقبال کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ پہلے ہی دو ایک جیسی درخواستوں میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اختیارات کا جائزہ لے رہا ہے۔

مزید پڑھیں: سابق چیئرمین نیب جاوید اقبال پر عائد ہراسانی کے الزامات کی تحقیقات کیلئے کمیشن تشکیل

الگ الگ درخواستوں میں نیب کے لاہور آفس کے ڈائریکٹر جنرل سلیم شہزاد اور بیورو کے قائم مقام چیئرمین ظاہر شاہ نے اس سے قبل پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے دائرہ اختیار کو چیلنج کیا تھا جہاں یہ درخواستیں ابھی تک زیر التوا ہیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے جواب دہندگان کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 11 اگست تک ان سے جواب طلب کیا جبکہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو اس وقت تک جاوید اقبال کے خلاف کوئی منفی کارروائی کرنے سے بھی روک دیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں