امریکی ڈرون حملے میں ایمن الظواہری کی ہلاکت پر طالبان خاموش، ردعمل پر غور

اپ ڈیٹ 04 اگست 2022
سہیل شاہین نے صحافیوں کو بتایا کہ انہیں طالبان کے مؤقف کے حوالے سے کوئی بیان موصول نہیں ہوا—فوٹو : رائٹرز
سہیل شاہین نے صحافیوں کو بتایا کہ انہیں طالبان کے مؤقف کے حوالے سے کوئی بیان موصول نہیں ہوا—فوٹو : رائٹرز

افغانستان میں طالبان کے سرکردہ رہنما اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ کابل میں اس امریکی ڈرون حملے پر کیسا ردعمل دیا جائے جس میں امریکا کے بقول القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری مارے گئے۔

ڈان اخبار میں شائع خبررساں ادارے 'رائٹرز' کی رپورٹ کے مطابق امریکا نے ایمن الظواہری کو ڈرون سے داغے گئے میزائل سے اس وقت ہلاک کر دیا جب وہ اتوار کے روز کابل میں اپنی رہائش گاہ کی بالکونی میں کھڑے تھے۔

امریکی حکام اسے طالبان کے لیے پاکستان میں ایک دہائی قبل اسامہ بن لادن کو مارے جانے کے بعد سب سے بڑا دھچکا قرار دے رہے ہیں تاہم طالبان نے تاحال ایمن الظواہری کی موت کی تصدیق نہیں کی۔

القاعدہ کے دیرینہ اتحادی اور افغان طالبان کے عہدیداروں نے ابتدائی طور پر امریکی ڈرون حملے کی تصدیق کی لیکن ان کا کہنا تھا کہ اس حملے میں جس گھر کو نشانہ بنایا گیا وہ خالی تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ایمن الظواہری کو نشانہ بنانے والا ڈرون کرغزستان سے اڑا، رپورٹس

کابل میں اہم عہدے پر فائز ایک طالبان رہنما نے کہا کہ ’اس حوالے سے غور کے لیے اعلیٰ سطح کے اجلاس ہورہے ہیں کہ کیا انہیں ڈرون حملے پر ردعمل ظاہر کرنا چاہیے یا نہیں اور اگر ردعمل دینے کا فیصلہ کرتے ہیں تو اس کا مناسب طریقہ کیا ہے‘۔

طالبان رہنما نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر مزید بتایا کہ 2 روز سے طالبان قیادت طویل بات چیت میں مصروف ہے، انہوں نے اس بات کی تصدیق نہیں کی کہ امریکی ڈرون حملے کا نشانہ بننے والے گھر میں ایمن الظواہری موجود تھے یا نہیں۔

ایک سال قبل افغانستان میں امریکی حمایت یافتہ حکومت کی شکست کے بعد اب برسراقتدار طالبان کا اس معاملے پر ردعمل ان کی بین الاقوامی قانونی حیثیت اور اربوں ڈالر کے منجمد فنڈز تک رسائی پر اہم اثرات مرتب کر سکتا ہے۔

مصر سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر ایمن الظواہری 11 ستمبر 2001 کو امریکا میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملوں کی منصوبہ بندی میں ملوث تھے اور دنیا کے سب سے زیادہ مطلوب افراد میں سے ایک تھے۔

مزید پڑھیں: القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری کابل میں امریکی ڈرون حملے میں ہلاک

کابل میں ان کی ہلاکت سے یہ سوالات اٹھ رہے ہیں کہ کیا انہیں افغان طالبان کی جانب سے پناہ گاہیں ملی ہوئی ہیں جنہوں نے 2020 میں امریکی زیر قیادت افواج کے انخلا کے معاہدے کے تحت امریکا کو یقین دلایا تھا کہ وہ دوسرے عسکریت پسند گروپوں کو پناہ نہیں دیں گے۔

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا کہ طالبان نے ایمن الظواہری کی میزبانی اور انہیں پناہ دے کر معاہدے کی سخت خلاف ورزی کی۔

طالبان کے سرکردہ رہنماؤں کے مخصوص حلقے کے علاوہ گروپ کے دیگر ارکان ایمن الظواہری کی ہلاکت کے علاوہ اس بات سے ہی ناواقف نظر آئے کہ آیا ایمن الظواہری واقعی کابل میں ہی موجود تھے۔

ایک اور طالبان عہدیدار نے اعلیٰ سطح کی ملاقاتوں کی تصدیق کی لیکن انہوں نے کہا کہ وہ نہیں جانتے کہ کیا بات چیت ہو رہی ہے اور انہیں یقین نہیں کہ ایمن الظواہری اس گھر میں موجود تھے۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا نے افغانستان میں ایمن الظواہری کی کھوج کیسے لگائی؟

اقوام متحدہ میں طالبان کے نامزد نمائندے سہیل شاہین نے صحافیوں کو بتایا کہ انہیں طالبان کے مؤقف کے حوالے سے کوئی بیان موصول نہیں ہوا۔   انہوں نے ایک پیغام میں صحافیوں کو بتایا کہ 'میں کابل کی جانب سے تفصیلات اور ردعمل کا انتظار کر رہا ہوں'۔

تبصرے (0) بند ہیں