طالبان حکام پر عائد سفری پابندی پر اقوام متحدہ میں اختلاف

23 اگست 2022
طالبان حکام پر عائد سفری پابندیاں ختم کرنے کے معاملے پر سلامتی کونسل تقسیم—فائل فوٹو: رائٹرز
طالبان حکام پر عائد سفری پابندیاں ختم کرنے کے معاملے پر سلامتی کونسل تقسیم—فائل فوٹو: رائٹرز

افغان حکمران طالبان کے چند عہدیداروں پر عائد سفری پابندیوں کے خاتمے پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اراکین کی رائے بدستور تقسیم ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق سفارتی ذرائع کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اراکین افغانستان کے متعدد طالبان عہدیداروں پر عائد سفری پابندیاں ہٹانے کے معاملے پر تقسیم ہیں۔

سلامتی کونسل کی 2011 کی ایک قرارداد کے تحت 135 افغان طالبان عہدیداروں پر پابندیاں عائد کی گئی تھیں جس میں ان کے اثاثے منجمند کرنا اور سفری پابندیاں بھی شامل ہیں۔

مزید پڑھیں: مائیک پومپیو کا افغان طالبان سے امن عمل پر تبادلہ خیال

سفری پابندیوں کا شکار 135 طالبان عہدیداروں میں سے 13 کو غیرملکی حکام سے ملاقاتوں کے پیش نظر پابندیوں سے استثنیٰ دی گئی تھی مگر آئرلینڈ کی طرف سے مزید ایک مہینے کے لیے پابندیوں میں استثنیٰ پر توسیع پر اعتراض کے بعد یہ رعایت گزشتہ جمعے کو ختم ہو چکی ہے۔

رواں برس جون میں افغانستان کے حوالے سے سلامتی کونسل کے 15اراکین پر مشتمل پابندی کمیٹی نے پہلے ہی طالبان حکومت کے تعلیم سے متعلق دو وزرا کو ملک میں خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کی پامالی کی پاداش میں استثنیٰ دینے کی فہرست سے خارج کر دیا تھا۔

سفارتی ذرائع کے مطابق کئی مغربی ممالک سفری پابندیاں کے استثنیٰ کی فہرست مزید محدود کرنا چاہیں گے۔

متعدد مغربی ممالک نے اس پر یہ جواز پیش کیا ہے کہ ایک سال قبل اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد طالبان نے انسانی حقوق یقینی بنانے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے جو عزم کیا تھا اس پر وہ پورا نہیں اترے۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا اور افغان طالبان کے درمیان امن معاہدہ ہوگیا،14 ماہ میں غیر ملکی افواج کا انخلا ہوگا

رواں مہینے، امریکا نے اعلان کیا تھا کہ کابل میں القاعدہ سربراہ ایمن الظواہری کی ڈرون حملے میں ہلاکت نے طالبان کے عسکریت پسند گروہوں کو پناہ نہ دینے کے وعدے پر سوالیہ نشان لگایا ہے۔

تاہم، چین اور روس نے چھوٹ دینے کی فہرست کی مسلسل توسیع کی حمایت کی تھی۔

چین کی صدارت میں سلامتی کونسل نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ ابھی چھوٹ دینا ضروری ہے اور انسانی حقوق کو طالبان حکام کے سفری مسائل سے جوڑنا ’نقصان دہ‘ ہے۔

سفارتی ذرائع کا کہنا تھا کہ گزشتہ ہفتے اور پھر پیر کو متعدد سمجھوتوں کی تجاویز پیش کی گئیں جن میں متعلقہ حکام کی فہرست کی تعداد میں کمی یا اضافہ دونوں فریقین نے مسترد کردیا تھا۔

تاہم، مذاکرات اور بات چیت جاری رکھنے کا امکان ہے۔

ممکنہ فیصلہ زیر التوا ہے کہ سفری پابندیوں کی فہرست میں شامل کوئی طالبان عہدیدار سفر نہیں کر سکتا۔

رپورٹ کے مطابق یہ خاص طور پر طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی کے لیے تشویش کا باعث ہے کیونکہ انہوں نے حالیہ مہینوں میں سفارتی بات چیت کے لیے کئی بار قطر کا دورہ کیا ہے جو 13مستثنیٰ افراد میں شامل تھے۔

مزید پڑھین:افغان طالبان اور مغربی ممالک کے درمیان تین روزہ مذاکرات کا آغاز

اتوار کو ٹوئٹر پر جاری پیغام میں طالبان حکومت کے وزارت خارجہ کے ترجمان نے سلامتی کونسل کو کہا کہ پابندیوں کو دباؤ بڑھانے کے لیے ہتھیار کے طور پر استمعال نہ کیا جائے اور طالبان حکام پر عائد تمام پابندیاں ختم کی جائیں۔

ترجمان نے کہا کہ ’اگر سفری پابندیوں میں توسیع کی گئی تو اس سے مذاکرات اور تعلقات کو فروغ دینے کے بجائے فاصلہ پیدا ہوگا لہٰذا ایسے نتیجے کی روک تھام ضروری ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں