نیویارک میں پولیو کیس سامنے آنے کے بعد خوف کے سائے، ویکسین کی اہمیت پر زور

اپ ڈیٹ 04 ستمبر 2022
جولائی میں 2013 کے بعد امریکا میں پولیو کا پہلا کیس رپورٹ ہوا — فائل فوٹو: اے ایف پی
جولائی میں 2013 کے بعد امریکا میں پولیو کا پہلا کیس رپورٹ ہوا — فائل فوٹو: اے ایف پی

جب برٹنی اسٹرک لینڈ نے سنا کہ امریکا میں تقریباً ایک دہائی بعد پولیو کا کیس سامنے آیا ہے تو انتہائی خوف زدہ ہوگئیں جبکہ 33 سالہ شخص کو مستقل معذوری میں مبتلا کرنے والی بیماری کے خلاف مدافعت کرنے والی ویکسین نہیں لگائی گئی تھی۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق ویکسین لگوانے کے بعد ڈیزائنر نے خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کو بتایا کہ میری والدہ ویکسین کے خلاف تھیں، اس لیے مجھے معلوم ہوا کہ مجھے بچپن میں کبھی پولیو ویکسین نہیں لگائی گئی۔

اسٹرک لینڈ نے کہا کہ یہ جاننا بہت خوفناک ہے، آپ کو نہیں لگتا کہ یہاں یہ ہونے والا ہے اور پھر کچھ لوگوں کو ویکسین نہیں لگائی جاتی اور اب ہم سب اس خطرے سے دوچار ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا میں تقریباً ایک دہائی بعد پولیو کا پہلا کیس رپورٹ

اسٹرک لینڈ کو نیویارک کی راک لینڈ کاؤنٹی پومونا میں ویکسین لگائی گئی جہاں جولائی میں 2013 کے بعد امریکا میں پولیو کا پہلا کیس رپورٹ ہوا، خطرناک وائرس کا شکار ایک ایسا نوجوان ہوا جسے ویکسین نہیں لگائی گئی تھی اور یہ بیماری اسے فالج کا شکار کر رہی تھی۔

حکام کا کہنا تھا کہ وائرس کا شکار نوجوان کبھی بیرون ملک نہیں گیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ بیماری مقامی طور پر اسے لگی ہے۔

مقامی میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ متاثرہ شخص آرتھوڈوکس یہودی کمیونٹی کا رکن ہے جو ویکسین لگوانے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتی ہے۔

راک لینڈ میں آرتھوڈوکس یہودیوں کی بہت بڑی تعداد آباد ہے۔

گزشتہ ہفتے ایک درجن سے زیادہ یہودی روحانی پیشواؤں نے ایک کھلا خط جاری کیا جس میں اراکین پر زور دیا گیا کہ وہ ویکسین لگوائیں۔

مزید پڑھیں: شمالی وزیرستان: پولیو وائرس سے 8 ماہ کا بچہ معذور ہوگیا

حفاظتی ویکسین کی اہمیت کے بارے میں اراکین کو آگاہی دینے والی ایک آزاد ہیلتھ کمیونیکیٹر اور آرتھوڈوکس یہودی شوشنا برنسٹین کا کہنا تھا کہ کوئی بھی کمیونٹی جو نئے نظریات کو اپنانے میں غیر سنجیدہ اور ہچکچاہٹ کا شکار ہے وہ اینٹی ویکس میسجنگ کے لیے حساس ہیں، تاہم ہماری کمیونٹی میں ایسے بزرگ موجود ہیں جو تازہ ترین تجربے سے متعلق بات کر سکتے ہیں۔

اگرچہ ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ سامنے آنے والا پولیو وائرس کا یہ کیس واحد تھا یا خطرناک وائرس وسیع پیمانے پر ملک میں پھیل چکی بیماری کا چھوٹا سا حصہ ہے۔

نیویارک سٹی یونیورسٹی کے ماہر وائرولوجسٹ نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ یہ کیس پھیلی ہوئی بیماری کا چھوٹا سا حصہ ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ وائرس سے متاثرہ افراد میں سے کچھ لوگوں کو اس کی علامات ظاہر ہوتی ہیں جبکہ صرف چند کیسز میں ہی متاثرہ شخص فالج کا شکار ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پولیو ویکسین 'حرام' نہیں : لیبارٹری رپورٹ

انہوں نے کہا کہ لیکن اگر بہت زیادہ لوگ اس سے متاثر ہو رہے ہیں تو ہم بہت زیادہ فالج زدہ کیس رپورٹ کرنا شروع کرسکتے ہیں۔

امریکا اور دیگر ممالک میں پولیو سے بچاؤ کے لیے غیر فعال پولیو وائرس کے ساتھ تیار کردہ ٹیکے استعمال کیے جاتے ہیں جبکہ چند ممالک میں پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلائے جاتے ہیں جن میں زندہ وائرس کمزور شکل میں موجود ہوتا ہے، بسا اوقات یہ کمزور وائرس مہلک صورت اختیار کر لیتا ہے اور وائرس کے پھیلاؤ کا سبب بن جاتا ہے۔

امریکا میں 1979 سے پولیو کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا تھا تاہم ماضی میں یہ وائرس پولیو کے شکار مسافروں کے ذریعے ملک میں لایا گیا تھا، اس طرز کا آخری کیس امریکا میں 2013 میں ریکارڈ کیا گیا تھا۔

اس تازہ کیس کے بعد حکام صحت نے ویکسین کلینکس کھولنے کا منصوبہ بنایا ہے جس میں پولیو ویکسین لگوانے سے اب تک رہ جانے والوں کو فوری ویکسی نیشن کی تنبیہ کی گئی ہے۔

مزید پڑھیں: پاکستان میں پولیو جہاد کے 'شہداء' کی داستان

امریکا میں ایک عرصے تک پولیو سب سے زیادہ خوفناک بیماریوں میں شمار کیا جاتا تھا، 1940 کی دہائی کے اواخر میں پولیو انفیکشن ہر سال تقریباً 35 ہزار امریکیوں کی معذوری کا سبب بن رہا تھا، پولیو کی پہلی ویکسین 1955 میں دستیاب ہوئی۔

خیال رہے کہ پولیو کا کوئی علاج نہیں ہے لیکن ویکسی نیشن کے ذریعے اس انفیکشن کو روکا جاسکتا ہے، حالیہ دہائیوں میں دنیا بھر میں کیسز میں واضح کمی قومی اور علاقائی سطح پر بچوں کے لیے بڑے پیمانے پر انسداد پولیو مہم کے نتیجے میں سامنے آئی۔

صحت کے حکام تمام ایسے لوگوں کو جنہوں نے حفاظتی ویکسین نہیں لگوائی، ان پر ویکسین کے لیے زور دے رہے ہیں جبکہ راک لینڈ کاؤنٹی مفت شاٹس کی پیشکش کر رہی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں