امریکا: جج نے پوڈ کاسٹ ’سیریل‘ کے بعد پاکستانی نژاد امریکی کے قتل کی سزا ختم کردی

اپ ڈیٹ 20 ستمبر 2022
عدنان سید عدالت سے مسکراتے ہوئے باہر آئے، تاہم انہوں نے کوئی بات نہیں کی — فوٹو: رائٹرز
عدنان سید عدالت سے مسکراتے ہوئے باہر آئے، تاہم انہوں نے کوئی بات نہیں کی — فوٹو: رائٹرز

امریکی ریاست میری لینڈ کے جج نے پاکستانی نژاد امریکی عدنان سید کو سن 2000 میں قتل کے جرم میں سنائی گئی سزا ختم کردی۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کے مطابق استغاثہ نے عدالت کو بتایا کہ عدنان سید کے مقدمے میں متعدد سنگین مسائل سامنے آئے، ان کی سابق گرل فرینڈ کے قتل میں ڈیفنس نے ممکنہ طور پر 2 دیگر مشتبہ افراد کو کبھی ظاہر ہی نہیں کیا۔

رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں اس مقدمے کو اس وقت توجہ حاصل ہوئی جب پوڈ کاسٹ ‘سیریل’ نے ان کے جرم کے حوالے سے شکوک و شبہات ظاہر کیے۔

عدنان سید اب 42 برس کے ہوچکے ہیں، انہوں نے ہمیشہ کہا ہے کہ وہ بے قصور ہیں اور انہوں نے ہی یونگ لی کو قتل نہیں کیا، جن کی عمر اس وقت 18 سال تھی، جب اسے 1999 میں بالٹی مور کے ایک پارک میں گلا دبا کر مارنے کے بعد دفن کردیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: نیو میکسیکو: مسلم شہریوں کو نشانہ بنا کر قتل کیے جانے کا خدشہ ہے، امریکی پولیس

بالٹی مور کی کورٹ کے جج میلیسا فن نے عدنان سید کو جیل سے رہا کرکے گھر میں نظربند رکھنے کا حکم دیا اور مقدمے کا نیا ٹرائل شروع کرنے کا کہا۔

عدنان سید عدالت سے مسکراتے ہوئے باہر آئے، تاہم انہوں نے کوئی بات نہیں کی۔

ریاست کے وکیل برائے بالٹی مور نے عدنان سید کی نمائندگی کرنے والے وکیل صفائی کے ساتھ کی جانے والی ایک سال طویل تحقیقات کے بعد سزا کو ختم کرنے کے لیے ایک درخواست دائر کی، جس میں کہا گیا کہ مقدمے کی سماعت کے گواہان اور شواہد کے حوالے سے متعدد مسائل پائے گئے۔

استغاثہ نے عدالت کو بتایا کہ وہ اب بھی یہ دعویٰ نہیں کر رہے کہ عدنان سید بے قصور ہیں لیکن انہیں اب ‘سزا کے اصولوں پر پورا ہونے’ کے حوالے سے اعتماد نہیں ہے، اور انصاف کا تقاضا ہے کہ کم از کم ایک نئے مقدمے کی سماعت کی جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ عدنان سید کو جیل سے رہا کیا جانا چاہیے، جہاں انہوں نے 2 دہائیوں سے زیادہ وقت گزارا ہے، استغاثہ تحقیقات مکمل کریں اور فیصلہ کریں کہ آیا مقدمہ چلایا جائے یا کسی دوسرے مشتبہ شخص کے خلاف مقدمہ چلایا جائے۔

استغاثہ نے عدالت کو بتایا کہ انہیں 2 دیگر مشتبہ افراد کے بارے میں نئی معلومات ملی ہیں، جن کا نام انہوں نے نہیں بتایا، بشمول ایک ایسے شخص کے جس نے یونگ لی کو قتل کرنے کی دھمکی دی تھی، ان دونوں کی خواتین کے خلاف پرتشدد جرائم کی تاریخ بھی ہے، ان کی شناخت اصل استغاثہ کو معلوم تھی لیکن قانون کے مطابق دفاع کے لیے ظاہر نہیں کی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا: کار چھیننے کی واردات میں مزاحمت پر پاکستانی شخص کا قتل

استغاثہ نے ایک اہم گواہ کا بھی فیصلہ کیا تھا جبکہ قتل کی تفتیش کرنے والا جاسوس ناقابل اعتبار تھا، انہیں یہ نئی معلومات بھی حاصل ہوئیں اور اس پر بھی شکوک و شبہات پیدا ہوئے کہ استغاثہ نے مقدمے میں سیل فون کے ڈیٹا پر بھروسہ کیا تھا جو قتل کے مقام پر تھا۔

یونگ لی کے بھائی نے عدالت کو بتایا کہ ہمیں اس پر صدمہ ہوا ہے اور اس سے اہل خانہ کو دھوکا ملنا محسوس ہوتا ہے کہ استغاثہ نے دہائیوں تک سزا پر قائم رہنے کے بعد اپنا مؤقف تبدیل کردیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بار بار اس عمل سے گزرنا واقعی مشکل ہے ، بعض اوقات اس کی آواز گھومتی ہے، ‘یہ ایک ڈراؤنا خواب ہے’۔

شکاگو پبلک ریڈیو اسٹیشن ‘ڈبلیو بی ای زیڈ’ کے ذریعے تیار کردہ پوڈ کاسٹ 'سیریل' نے 2014 میں اس کیس کی طرف قومی توجہ مبذول کروائی تھی۔

مزید پڑھیں: سابق شوہر نے امریکی خاتون کو قتل کرنے کا اعتراف کرلیا، راولپنڈی پولیس

بالٹی مور کے ریاستی اٹارنی مارلن موسبے نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ انصاف منترا نہیں بلکہ ہمارا مشن ہے، ان کا کہنا تھا کہ اگلے اقدامات کا اعلان کرنے سے پہلے ڈی این اے شواہد پر نئے ٹیسٹ کے نتائج کا انتظار کر رہے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں