یوٹیلٹی اسٹور پر سبسڈی کی حامل اشیا پر صرف غریب طبقے کا حق ہے، پبلک اکاؤنٹس کمیٹی

05 اکتوبر 2022
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس چیئرمین اور رکن قومی اسمبلی نور عالم خان کی زیر صدارت منعقد ہوا— فائل فوٹو بشکریہ ٹوئٹر
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس چیئرمین اور رکن قومی اسمبلی نور عالم خان کی زیر صدارت منعقد ہوا— فائل فوٹو بشکریہ ٹوئٹر

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے مشاہدہ کیا ہے کہ یوٹیلیٹی اسٹورز پر سبسڈی کی حامل اشیا پر صرف معاشرے کے غریب اور پسماندہ طبقے کا حق ہے اور اس کی تقسیم کمپیوٹرائزڈ طریقے سے شفاف انداز میں ہونی چاہیے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کمیٹی کے چیئرمین اور رکن قومی اسمبلی نور عالم خان نے کہا کہ باقی سب افراد کو چینی، گندم اور دیگر اشیا باقاعدہ عام نرخوں پر خریدنی چاہئیں۔

مزید پڑھیں: ستمبر میں مہنگائی معمولی کمی کے بعد 23.18 فیصد ہوگئی

وزارت صنعت و پیداوار سے متعلق پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا، کمیٹی نے سال 20-2019 کے آڈٹ پیراز، کاروں کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے جواز اور یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن کے کام کے بارے میں تبادلہ خیال کیا۔

اراکین اس بات پر حیران رہ گئے کہ پشاور میں خود چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے نام پر سبسڈی والے آٹے کے تھیلے جاری کیے گئے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن کا تقسیم کا طریقہ کار ناقص تھا۔

نور عالم خان نے سیکریٹری وزارت صنعت و پیداوار امداد اللہ بوسال کو ہدایت کی کہ وہ اس معاملے کی تحقیقات کریں کہ ان کے نام پر دھوکا دہی سے سبسڈی کے حامل آٹے کے تھیلے کیوں جاری کیے گئے۔

کمیٹی نے وزارت کو ہدایت کی کہ صرف غریبوں میں اشیائے خوردونوش کی تقسیم کو یقینی بنایا جائے اور یوٹیلٹی اسٹورز کے منیجنگ ڈائریکٹر کو بالخصوص سندھ اور بلوچستان کے دور دراز علاقوں جیسے روزن مزاری، ڈیرہ غازی خان کے اسٹورز کا دورہ کرنے کی بھی ہدایت کی، کمیٹی نے ایم ڈی سے کہا کہ وہ اس بات کا پتہ لگائیں کہ کیا یوٹیلٹی اسٹورز لوگوں کی ضروریات پوری کر رہے ہیں اور یہ بھی چیک کریں کہ آیا ان مقامات پر صرف منظور شدہ اشیائے خوردونوش فروخت ہو رہی ہیں یا نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ای سی سی اجلاس: کے الیکٹرک کیلئے بجلی 51 پیسے فی یونٹ مہنگی کرنے کی منظوری

گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافے کے معاملے پر کمیٹی نے آٹوموبائل کمپنیوں کے سربراہان کی عدم موجودگی پر برہمی کا اظہار کیا، چیئرمین نے سیکریٹری وزارت صنعت و پیداوار کو ہدایت کی کہ آئندہ اجلاس میں آٹو موبائل کمپنیوں کے سربراہان کی موجودگی یقینی بنائی جائے۔

اس کے علاوہ چیئرمین ایف بی آر ممبر کسٹم اینڈ ان لینڈ ریونیو(ایف بی آر)، سیکریٹری وزارت تجارت، گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور چیئرمین سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کو بھی آئندہ اجلاس میں شرکت کی ہدایت کی گئی۔

گاڑیوں اور کاروں کی قیمتیں وزارت صنعت و پیداوار کے قابو سے باہر ہونے کے سبب کمیٹی نے وزیر اعظم سے درخواست کی کہ گاڑیوں اور کاروں کی درآمدات کی اجازت دی جائے تاکہ آٹوموبائل کمپنیوں کی اجارہ داری پر قابو پایا جا سکے۔

کمیٹی نے مشاہدہ کیا کہ کار ساز کمپنیاں صارفین سے اربوں روپے کی ایڈوانس رقم جمع کر رہی ہیں، آڈیٹر جنرل کے دفتر کے مطابق ایک کمپنی نے صارفین سے ایڈوانس بکنگ کی مد میں 111 ارب روپے جمع کیے تھے اور یہ الزام بھی لگایا کہ کار ساز ادارے مالیات سے متعلق ڈیٹا اور ثبوت کو روک رہے ہیں۔

کمیٹی نے جعلی ڈگریوں کی بنیاد پر ملازمین کی تعیناتی کا نوٹس لیتے ہوئے سیکریٹری وزارت صنعت و پیداوار کو ہدایت کی کہ وہ ان کے خلاف ایف آئی آر درج کریں اور ان سے بھی ریکوری کے لیے مہم شروع کریں۔

مزید پڑھیں: ہفتہ وار مہنگائی 30.62 فیصد تک پہنچ گئی

اس حوالے سے کہا گیا کہ ان افسران کے خلاف بھی کارروائی کی جا سکتی ہے جنہوں نے انہیں تعینات کیا اور ان کی تقرری سے پہلے اور بعد میں ان کی تعلیمی اسناد کی تصدیق نہیں کی، اس سلسلے میں سیکریٹری داخلہ کو سات دن میں رپورٹ پیش کرنے کا کہا گیا، کمیٹی نے آڈیٹر جنرل آف پاکستان کو ہدایت کی کہ ایک ماہ کے اندر تمام پبلک سیکٹر کمپنیوں کی کارکردگی کا آڈٹ کرایا جائے۔

ایک سوال پر کمیٹی نے نیب کو ہدایات جاری کیں کہ انکوائریوں کی کارروائی میں دیگر محکموں کی مدد لیتے ہوئے اس بات کو ملحوظ خاطر رکھا جائے کہ بات چیت کے دوران شائستہ اور مہذب الفاظ کا استعمال کیا جائے۔

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے سفارش کی کہ فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) اور قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے کی جانے والی انکوائریوں میں آڈٹ ڈپارٹمنٹ کے ایک نمائندے کو بھی شامل کیا جائے۔

تبصرے (0) بند ہیں