ایران میں نوجوان خاتون مہسا امینی کی موت کے خلاف دو ہفتوں سے جاری پُرشتدد مظاہروں سے نمٹنے کی کوشش تیز کرنے کے لیے متعدد شہروں کی یونیورسٹیز میں سیکیورٹی فورسز تعینات کردی گئی ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’رائٹرز‘ کے مطابق 22 سالہ مہسا امینی کی اخلاقی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد ملک بھر میں غیریقینی صورتحال پیدا ہوگئی ہے جو کئی برسوں بعد ایران کے مذہبی حکمرانوں کے لیے پریشان کن صورتحال کا باعث بن گئی ہے۔

مزید پڑھیں: ایرانی سپریم لیڈر کا ٹرمپ کو جواب، 'ہر خطرے کا مقابلہ کریں گے'

حکام نے سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں سمیت متعدد ہلاکتیں رپورٹ کرتے ہوئے اس کا الزام بیرونی قوتوں بالخصوص امریکا پر عائد کیا ہے کہ وہ ایران کو تباہ کرنے کی سازش میں ملوث ہے۔

آج سوشل میڈٰیا پر گردش کردہ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ تہران کے ایک ہائی اسکول کی لڑکیاں اپنے حجاب اتارتے ہوئے سپریم لیڈر کے خلاف نعرے لگا رہی ہیں۔

شیراز کے علاقے میں ایک اسکول میں ریکارڈ کی گئی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ 50 سے زائد طلبہ پاسدارانِ انقلاب کے ایک فورس ’باسج‘ کے رکن کو گھیرتے ہوئے ’نکل جاؤ باسج، آیت اللہ علی خامنہ ای مردہ باد‘ کے نعرے لگاتی ہیں۔

تاہم، رائٹرز کو ویڈیوز کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہوسکی۔

یہ بھی پڑھیں: ایران میں ’اخلاقی پولیس‘ کی زیر حراست خاتون کی موت پر مظاہرے

13 ستمبر کو غیر موزوں لباس پہننے کے الزام میں اخلاقی پولیس کے ہاتھوں کرد ایرانی خاتون مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد ایران بھر میں سماج کے مختلف حلقوں سے تعلق رکھنے والے ہزاروںشہریوں نے مظاہروں میں شرکت کی ہے ۔

مظاہروں کے آغاز کے بعد ایک اور 17 سالہ لڑکی نیکا شکرامی کی ہلاکت نے مظاہرین میں مزید غم و غصہ کی لہر پیدا کردی جہاں ٹوئٹر پرصارفین نے کہا کہ نیکا شکرامی کو تہران میں مہسا امینی کی ہلاکت کے خلاف مظاہرہ کرتے ہوئے قتل کیا گیا۔

سرکاری میڈیا نے کہا کہ نیکا شکرامی کی ہلاکت پر عدالتی کیس کا آغاز کیا گیا ہے اور سرکاری حکام کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ ان کی موت کا تعلق موجودہ غیریقینی صورتحال سے نہیں ہے کیونکہ وہ ایک چھت سے گری تھیں جن کے جسم پر گولی کا کوئی زخم نہیں ہے۔

مزید پڑھیں:ایران: مہسا امینی کے والدین نے پولیس کے خلاف شکایت درج کرادی

'گھناؤنی حرکتیں'

دوسری جانب تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکی حمایت یافتہ حکمراں کے زوال کے بعد گزشتہ چار دہائیوں سے عائد سخت سماجی اور سیاسی پابندیوں پر بڑھتی ہوئی بے چینی کے باوجود مذہبی حکمرانوں کی حکومت ختم ہونے کے قریب نہیں ہے۔

حکومت نے مہسا امینی کی ہلاکت پرتفتیش کا حکم دیا ہے جبکہ سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے کہا کہ انہیں خاتون کی ہلاکت پر دلی افسوس ہوا ہے۔

لیکن حکومت کے قائم ارادوں اور سوچ کی عکاسی کرتے ہوئے وزیر داخلہ احمد واحدی نے مظاہرین پر خواتین کے حقوق کے نام پر گھناؤنی حرکتیں کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔

پاسدارانِ انقلاب کے سابق کمانڈر احمد واحدی نے خواتین کے لیے ’ڈریس کوڈ قوانین‘ کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ مظاہرین کو خواتین کی ’عریانی اور بے شرمی میں آزادی نظر آتی ہے۔‘

مہسا امینی کی موت اور اس کے بعد مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن مغربی ممالک کے ساتھ ایران کے پہلے سے ہی کشیدہ تعلقات میں مزید مشکلاتیں پیدا کردی ہیں جو عالمی قوتوں سے 2015 کے جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے مذاکرات میں خلل پیدا کر رہی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ایران میں مظاہرے: امن یقینی بنانے کیلئے ’دشمنوں سے مقابلہ‘ کریں گے، ایرانی فوج

ایران نے متعدد مغربی ممالک کے سفیروں کو طلب کیا ہے جن پر ایران مداخلت کرنے اور کشیدہ صورتحال پیدا کرنے میں ملوث ہونے کا الزام عائد کرتا ہے۔

سرکاری میڈیا کے مطابق برطانوی وزارت خارجہ کی طرف سے ایران میں مداخلت کے بیانات کے رد عمل کے لیے برطانوی سفیر کو ایک بار طلب کیا گیا تھا۔

اس ہفتے بڑھتی ہوئی بین الاقوامی حمایت کے بعد فرانس کی معروف اداکاراؤں جولیٹ بنوشے اور ازابیل ہپرٹ نے مہسا امینی کی ہلاکت پر احتجاجی طور پر اپنے بال کاٹے اور یورپی پارلیمنٹ کے ایک سویڈش رکن نے تقریر کرتے ہوئے چوٹی کاٹ دی۔

تبصرے (0) بند ہیں