پشاور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کو محمود خان کے خلاف کارروائی سے روک دیا

08 اکتوبر 2022
وکیل نے عدالت نے استدعا کی کہ محمود خان کے خلاف 19 ستمبر کو الیکشن کمیشن کا نوٹس واپس لیا جائے —فائل فوٹو: پی پی آئی
وکیل نے عدالت نے استدعا کی کہ محمود خان کے خلاف 19 ستمبر کو الیکشن کمیشن کا نوٹس واپس لیا جائے —فائل فوٹو: پی پی آئی

پشاور ہائی کورٹ نے چارسدہ جلسے میں شرکت کرنے پر وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان اچکزئی کے خلاف الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کو تادیبی کارروائی کرنے سے روک دیا ہے۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق جسٹس شکیل احمد اور جسٹس سید ارشاد علی پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے سماعت کی، جج نے الیکشن کمیشن کو ہدایت جاری کی کہ وہ 2 ہفتوں کے اندر وزیراعلیٰ کی درخواست کا تحریری جواب جمع کروائیں جس میں یہ موقف اپنایا گیا کہ صوبے میں ضمنی انتخابات کے دوران الیکشن کمیشن کا ضابطہ اخلاق محمود خان پر لاگو نہیں ہوتا۔

یہ بھی پڑھیں: انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی، عمران خان اور محمود خان پر 50 ہزار روپے جرمانہ

فیصلے میں بتایا گیا کہ عدالت کے آئندہ حکم نامے تک الیکشن کمیشن اور چارسدہ کے ڈسٹرکٹ مانیٹرنگ آفیسر (ڈی ایم او) کے جاری نوٹس پر وزیراعلیٰ کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی۔

درخواست گزار نے عدالت سے استدعا کی کہ 17 ستمبر کو چارسدہ میں وزیراعظم عمران خان کے جلسے کے لیے ہیلی کاپٹر سمیت حکومتی مشینری کا استعمال کرکے انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرنے پر الیکشن کمیشن کے 19 ستمبر کے نوٹس کو غیر قانونی قرار دیا جائے۔

درخواست گزار نے کہا کہ الیکشن ایکٹ 2017 اور ضابطہ اخلاق کے قوانین، ایکٹ کے دفعہ 233 کے تحت صرف مخصوص لوگوں پر یہ قانون لاگو ہونا چاہیے۔

مزید پڑھیں: ضابطۂ اخلاق کی خلاف ورزی پر خیبرپختونخوا میں ضمنی انتخابات ملتوی کرنے کا انتباہ

وزیراعلیٰ محمود خان نے عدالت سے کہا کہ الیکشن کمیشن یا اس کا کارکن الیکشن ایکٹ کے دفعہ 233 اور 234 کے منشور کے دسترس سے باہر نہیں جاسکتا۔

درخواست گزار کے وکیل علی گوہر درانی نے مؤقف اختیار کیا کہ وزیراعلیٰ محمود خان کے خلاف سیکشن 233 اور 234 کی دفعات کے تحت کارروائی نہیں ہوسکتی اس لیے ان کا نام سیکشن 233 اور 234 کی فہرست سے خارج کیا جائے۔

وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ محمود خان کے خلاف 19 ستمبر کو الیکشن کمیشن کا نوٹس واپس لیا جائے۔

وکیل علی گوہر درانی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ایکٹ کی دفعہ 233 میں سیاسی جماعتوں اور انتخابی امیدواروں کے لیے ضابطہ اخلاق کی شرط رکھی گئی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کو ایکٹ کی دفعہ میں سیاسی جماعتوں، انتخابی امیدواروں، الیکشن اور پولنگ ایجنٹس، سیکیورٹی اہلکاروں، میڈیا اور انتخابی مبصرین کے لیے ضابطہ اخلاق واضح کرنے چاہئیں۔

وکیل کا کہنا تھا کہ ایکٹ کا دفعہ 234 انتخابی مہم کی نگرانی کے لیے مخصوص ہے، اس دفعہ کا اطلاق امیداواروں اور سیاسی جماعتوں سمیت مخصوص طبقے کے افراد پر لاگو ہوتا ہے۔

وکیل نے کہا کہ 17 ستمبر کو ڈسٹرکٹ مانیٹرنگ آفیسر چارسدہ کی جانب سے درخواست کو این اے 24 چارسدہ میں انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر نوٹس بھیجا تھا، جس کے بعد درخواست گزار کے خلاف کارروائی کی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق کی خلاف وزیر، وزیر اعظم سمیت دیگر کو نوٹس جاری

وکیل علی گوہر درانی نے کہا کہ چارسدہ کے ڈسٹرکٹ مانیٹرنگ آفیسر کے خلاف کارروائی جب زیر التوا تھی تو درخواست گزار کو الیکشن کمیشن نے اسی طرح کا نوٹس جاری کیا تھا۔ْ

انہوں نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے علاوہ کسی بھی فورم کو قانون کی تشریح کرنے کی اجازت نہیں ہے۔

وکیل نے مزید کہا کہ جب درخواست گزارنے کوئی بھی خلاف ورزی نہیں کی تو الیکشن کمیشن کو قانون کی تشریح اور قانون کی کسی بھی شق میں شامل کرنے کا اختیار نہیں ہے۔

مزید پڑھیں: الیکشن کمیشن کا ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر وزیراعظم کو ایک اور نوٹس

الیکشن کمیشن کی جانب سے وکیل محسن کامران عدالت میں پیش ہوئے، انہوں نے کہا کہ آزادانہ، غیر جانبدارانہ اور منصفانہ انتخابات کروانا الیکشن کمیشن کی آئینی ذمہ داری ہے اور اسی مقصد کے تحت انتخابی ضابطہ اخلاق مرتب کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن تمام امیداواروں کے ساتھ یکساں برتاؤ کررہا ہے۔

وکیل محسن کامران نے مزید کہا کہ درخواست گزار کو اس لیے نوٹس جاری کیا کیوںکہ انہوں نے چارسدہ میں پاکستان تحریک انصاف کے جلسہ میں ہیلی کاپٹر سمیت سرکاری مشینری کے استعمال سے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں