سوات اسکول وین حملہ: انتظامیہ سے مذاکرات کامیاب، لواحقین کا 40 گھنٹے سے جاری دھرنا ختم

اپ ڈیٹ 11 اکتوبر 2022
سوات میں ہزاروں افراد نے دہشت گردی کے واقعات کے خلاف احتجاج کیا—فوٹو: فضل خالق
سوات میں ہزاروں افراد نے دہشت گردی کے واقعات کے خلاف احتجاج کیا—فوٹو: فضل خالق
احتجاج میں شریک سماجی کارکن علی نے کہا کہ حکومت دہشت گردی کے معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لے رہی ہے — فوٹو: ڈان نیوز
احتجاج میں شریک سماجی کارکن علی نے کہا کہ حکومت دہشت گردی کے معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لے رہی ہے — فوٹو: ڈان نیوز

خیبر پختونخوا کے ضلع سوات میں اسکول وین پر حملے اور اس کے نتیجے میں ڈرائیور کے جاں بحق ہونے کے واقعے کے خلاف لواحقین کا دھرنا 40 گھنٹے بعد انتظامیہ کے ساتھ کامیاب مذاکرات کے بعد ختم ہوگیا۔

سوات میں دہشت گردی کے واقعات کے خلاف ہزاروں افراد احتجاج میں شریک تھے اور اسکول وین پر حملوں کے ملزمان کی گرفتاری کا مطالبہ کررہے تھے اور دھمکی دی تھی اگر انتظامیہ 24 گھنٹوں میں ان کے مطالبات پورے کرنے میں ناکام ہوئی تو اسلام آباد کی طرف مارچ کریں گے۔

قبل ازیں سوات کے ڈپٹی کمشنر جنید خان دیگر عہدیداروں کے ہمرا ہ دھرنے کی جگہ پہنچے تھے اور مظاہرین کے ساتھ مذاکرات شروع کردیے تھے۔

احتجاج میں شریک گلی باغ کے شہری حیدر علی نے کہا کہ انتظامیہ کے ساتھ کامیاب مذاکرات کے بعد دھرنا ختم کردیا گیا ہے اور انتظامیہ نے وعدہ کیا کہ ملزم کو فوری گرفتار کریں گے اور مقتول کے بچوں کی کفالت کی جائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘ڈپٹی کمشنر نے مقتول ڈرائیور کے لواحقین کے لیے شہدا پیکیج کا وعدہ کیا اور کہا ہے کہ سوات کی سیکیورٹی سخت کی جائے گی اور مستقبل میں اس طرح کے دہشت گردی کے واقعے سے بچنے کے لیے انتظامات کیے جائیں گے’۔

انہوں نے کہا کہ حملے کی تفتیش سے مظاہرین کی تشکیل دی گئی 5 رکنی کمیٹی کو آگاہ کیا جائے گا۔

بعد ازاں مظاہرین نے مقتول ڈرائیور کی نماز جنازہ ادا کی۔

خیال رہے کہ سوات کے علاقے گلی باغ میں 10 اکتوبر کو حملے کے دوران فائرنگ کے نتیجے میں نجی اسکول کی گاڑی کا ڈرائیور محمد حسین موقع پر جاں بحق ہوگیا تھا، واقعے میں تیسری جماعت کے طالب علم منون ولد سیف اللہ کو 3 گولیاں لگی تھیں جو زیر علاج ہے۔

ریسکیو 1122 حکام کے مطابق چارباغ تحصیل کے علاقے گلی باغ میں وین طلبہ کو اسکول لے جارہی تھی کہ موٹر سائیکل پر سوار نامعلوم حملہ آوروں نے فائرنگ کردی، حملے میں ڈرائیور موقع پر ہی جاں بحق ہوگیا جب کہ 2 طلبہ کو زخمی حالت میں ہسپتال منتقل کردیا گیا تھا۔

مقامی لوگوں نے اس حملے کا الزام کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) پر عائد کیا تاہم گروپ نے ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کردیا ہے، جب کہ کسی اور تنظیم نے بھی تاحال حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔

واقعے کے خلاف سوات میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا جو تاحال جاری ہے جب کہ ضلعی انتظامیہ نے مظاہرین سے مذاکرات کیے اور انہیں احتجاج ختم کرانے کی کوشش کی لیکن وہ میں ناکام رہی۔

احتجاج میں شریک سوات کے ایک رہائشی عبدالحمید نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ ہم نے پوری رات کھلے آسمان تلے گزاری اور دھرنا جاری رکھا۔

یہ بھی پڑھیں: سوات میں اسکول وین پر فائرنگ سے ڈرائیور جاں بحق، 2 طلبہ زخمی

انہوں نے مزید کہا کہ وہ امن و امان کی خراب صورتحال اور دہشت گردانہ حملے کے ذمہ داروں کی گرفتاری کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

احتجاج میں شریک سماجی کارکن علی نے کہا کہ حکومت دہشت گردی کے معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لے رہی ہے۔

انہوں نے ڈان نیوز ڈاٹ ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ابھی اسسٹنٹ کمشنر اور ایس پی بات چیت کے لیے آئے لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ ان دونوں کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ کم از کم کمشنر ملاکنڈ کو مظاہرین سے بات چیت کے لیے آنا چاہیے تھا اور ان کے مطالبات کو پورا کرنے کی یقین دہانی کرانی چاہیے تھی۔

مزید پڑھیں: سوات میں عسکریت پسندوں کی موجودگی کے خلاف احتجاجی مظاہرے

ان کا کہنا تھا کہ مظاہرین نے حکومت کو 24 گھنٹے کے اندر ان کے مطالبات پورے کرنے کا کہا ہے، اگر ان کے مطالبات اس دوران پورے نہیں کیے گئے تو وہ اسلام آباد کی جانب مارچ کریں گے۔

مظاہرین کے مطالبات سے متعلق انہوں نے بتایا کہ ان کا سب سے پہلا مطالبہ اسکول وین ڈرائیور کے قاتل کو گرفتار کرنا اور حملے کے طاقتوں اور عناصر کو بے نقاب کرنا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ مظاہرین حکومت سے سیاحتی ضلع میں عسکریت پسندوں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں پر قابو پانے کے لیے اقدامات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

مینگورہ شہر میں بھی ‘دہشت گردی نامنظوری اور ریاست سے ہمارا امن کا مطالبہ جیسے نعرے لگائے گئے’ اور ہزاروں افراد نے اپنے مطالبات کے حق میں احتجاج کیا۔

سوات اولاسی پیسون کے تحت ہونے والے احتجاج میں سول سوسائٹی کے اراکین، طلبہ، اساتذہ، وکلا، ڈاکٹر، ٹرانسپورٹرز اور نوجوانوں سمیت دیگر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد نے شرکت کی۔

جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد بھی مظاہرین میں شامل تھے اور انہوں نے کہا کہ ہر پاکستانی کو آئینی حق حاصل ہے کہ ریاست ان کے جینے کا حق فراہم کرے۔

انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے دفاع پر بھاری بجٹ خرچ کرنے کے باوجود ریاست امن یقینی بنانے میں مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے۔

پی ٹی ایم کے رہنما منظور پشتین کا کہنا تھا کہ یہ حیران کن بات ہے کہ سیکیورٹی فورسز کی موجودگی میں طالبان سوات میں داخل ہوئے اور ایک دفعہ پھر ٹارگٹ کلنگ اور جعلی مقابلے ہورہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سوات کے عوام پہلے ہی خون ریزی دیکھ چکے ہیں، بچھے اپنے والدین کی لاشیں دیکھتے رہے، سوات کے لوگوں کے ساتھ 2007، 2008 اور 2009 میں چیک پوسٹوں پر بدتمیزی کی گئی۔

منظور پشتین نے کہا کہ سوات کے لوگ بے گھر ہوئے اور ان کی جائیدادیں تباہ ہوئیں اور انہیں بے دردی سے مارا گیا اور 2009 سے 2022 تک امن رہا تاہم پائیدار امن برقرار رہنا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: سینیٹرز کا کالعدم ٹی ٹی پی کی سرگرمیوں میں اضافے پر اظہارِ تشویش

انہوں نے کہا کہ یہ سوالیہ نشان ہے کہ پلک جھپکتے ہیں صورت حال افراتفری میں تبدیل ہوجاتی ہے جہاں سیکیورٹی فورسز کی بڑی تعداد میں موجودگی کے باوجود طالبان داخل ہوئے اور امن سبوتاژ کرنا شروع کردیا۔

تاہم اس دوران دھرنا جاری رہا، سوات کے کئی علاقوں میں نجی اسکول احتجاجی طور پر بدستور بند رہے۔

دہشت گردی کے خلاف احتجاج کے طور پر ضلع بھر میں تمام نجی اسکول مکمل طور پر بند رہے جب کہ اسکول کے طلبہ نشاط چوک پر بھی احتجاج کرتے رہے۔

—فوٹو: فضل خالق
—فوٹو: فضل خالق

ایگزیکٹو سیکریٹری پرائیویٹ اسکولز ایسوسی ایشن سوات نثار احمد نے بتایا کہ ضلع میں نجی اسکول بند رہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ کل ہونے والے اسکول وین پر حملے کے خلاف احتجاج کے طور پر ضلع کے تقریباً 1200 اسکول بند کیے گئے تھے۔

اس حملے سے 9 اکتوبر 2012 کو ہونے والے حملے کی یادیں تازہ کر دی تھیں جب نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسف زئی کی گاڑی پر تحریک طالبان کی جانب سے حملہ کیا گیا تھا جس کے نتیجے میں وہ شدید زخمی ہوگئی تھیں۔

ملالہ یوسف زئی کے کے والد ضیاالدین نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے اسے افسوس ناک اور تشویشناک قرار دیا تھا۔

دہشت گردی کے ہر واقعے میں ٹی ٹی ملوث نہیں، ترجمان حکومت خیبرپختونخوا

خیبرپختونخوا حکومت کے ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف نے پریس کانفرنس میں کہا کہ دہشت گردی کے ہر واقعے میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) ملوث نہیں۔

انہوں نے کہا کہ کالعدم ٹی ٹی پی ایک مسلح تحریک ہے، جو حکومت پاکستان کے خلاف سرگرم تھی تاہم طالبان کی ہر دہشت گردی کو ٹی ٹی پی سے نہ جوڑا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی سے مذاکرات کے دوران بتایا گیا تھا کہ ان کی کوئی کاروائی ہوئی تو باقاعدہ پریس ریلیز جاری کریں گے۔

صوبائی حکومت کے ترجمان نے کہا کہ مذاکرات مخالف طالبان اب بھی ڈی آئی خان سے سوات تک حکومت کے خلاف سرگرم ہیں، ڈی آئی خان میں گنڈا پور گروپ حکومت کے خلاف سرگرم ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ شمالی وزیرستان میں حافظ گل بہادر جبکہ کرم میں دولت خان گروپ سرگرم ہے، اس گروپ کا سربراہ دھماکے میں مارا گیا تھا، اسی طرح خیبر اور مہمند میں ولی خراسانی گروپ ہے جو ٹی ٹی پی سے الگ ہوکر سرگرم ہے۔

محمد علی سیف کا کہنا تھا کہ خفیہ اداروں کی رپورٹ کےمطابق دیر میں تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رکن صوبائی اسمبلی ملک مالک لیاقت پر حملے میں بھی کوچوان گروپ ملوث ہے، سوات، دیر اور دیگر ملحقہ علاقوں میں کوچوان گروپ سرگرم ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ تمام گروپ پہلے ٹی ٹی پی کا حصہ تھے اب مذاکرات کی مخالفت کرکے علیحدگی اختیار کر لی ہے۔

ترجمان نے کہا کہ سوات میں اسکول وین پر ہونے والے حملے کی تحقیقات جاری ہیں۔

مجرمانہ خاموشی

رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ کا کہنا تھا کہ کالعدم ٹی ٹی پی نے متوازی حکومت کا اعلان کردیا ہے، میڈیا احتجاج نظر انداز کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ کس طرح نمٹنا ہے، یہ قومی بحث ہونی چاہیے لیکن اس انتہائی نازک مسئلے پر مجرمانہ خاموشی چھائی ہوئی ہے۔

ایک اور ٹوئٹ میں احتجاج کی ویڈیو جاری کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سوات کے عوام نے واضح طور پر انتہاپسندی مسترد کرچکے ہیں۔

وفاقی وزیرموسمیاتی تبدیلی اور رہنما پی پی پی شیری رحمٰن نے حملے کی شدید مذمت کی۔

شیری رحمٰن نے کہا کہ اس طرح کے واقعات کسی صورت برداشت نہیں کیے جائیں گے، ہم اس حملے کے خلاف طلبہ کے ساتھ کھڑے ہیں، جو مجرمان اس واقعے میں ملوث ہیں انہیں جلد از جلد انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ سوات میں ایک مرتبہ پھر ریاست کی رٹ چیلنج کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی، صوبائی حکومت سے درخواست ہے کہ اس طرح کے واقعات سے بچنے کے لیے انتظامات کریں۔

خیال رہے کہ سوات میں گزشتہ چند ہفتوں کے دوران دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا ہے، گزشتہ ہفتے حکومتی اور اپوزیش سینیٹرز نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے دہشت گردی کی سرگرمیوں میں اضافے پر خطرے سے خبردار کیا تھا جب کہ پیپلز پارٹی کے سینیٹر نے وزارت داخلہ کی جانب سے کالعدم تنظیم کے حملوں سے متعلق حالیہ تھریٹ الرٹ کے بارے میں بریفنگ کا مطالبہ کیا تھا۔

مزید پڑھیں: سوات: پولیس پارٹی پر فائرنگ کرنے والے عسکریت پسندوں کی تلاش جاری

وزارت داخلہ نے حال ہی میں ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات منقطع ہونے کے بعد گروپ یا اس کے دھڑوں کی جانب سے دہشت گرد حملوں کے بڑھتے ہوئے خطرے پر الرٹ جاری کیا تھا۔

گزشتہ ماہ سوات کے ملحقہ پہاڑوں پر عسکریت پسندوں کی مبینہ موجودگی کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے پورے سوات میں بڑی تعداد میں لوگ سڑکوں پر نکلے تھےجنہوں نے زور دیا تھا کہ وہ کسی بھی گروہ یا دہشت گرد کو علاقے میں قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیا امن سبوتاژ نہیں کرنے دیں گے۔

شہریوں کی جانب سے 'ہم سوات میں امن چاہتے ہیں' اور دہشتگردی سے انکار' کے عنوان سے مظاہرے تحصیل خوازہ خیلہ میں مٹہ چوک اور تحصیل کبل کے کبل چوک کے نزدیک کیے گئے تھے۔

8 اگست کو رپورٹ کیا گیا تھا کہ 4 پولیس اہلکار بشمول ڈی ایس پی عسکریت پسندوں اور پولیس کے درمیان جھڑپ کے نتیجے میں سوات اور دیر کے اضلاع میں پہاڑ کے قریب زخمی ہو گئے تھے، دوسری جانب سوات کے ڈسٹرکٹ پولیس افسر نے کہا تھا کہ صرف ایک پولیس اہلکار زخمی جبکہ عسکریت پسندوں کا بھاری جانی نقصان ہوا ہے، غیرسرکاری ذرائع کے مطابق 4 پولیس اہلکار زخمی ہوئے تھے۔

گزشتہ ماہ ہی تحریک انصاف کے رکن صوبائی اسمبلی لیاقت علی خان عسکریت پسندوں کے حملے میں شدید زخمی اور 4 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔

خیال رہے کہ شمالی وزیرستان کے اطراف میں حالیہ مہینوں کے دوران ہونے والے دہشت گردانہ حملوں، لاقانونیت اور مختلف علاقوں میں ٹارگٹ کلنگ کے خلاف احتجاج اور مظاہرے بھی کیے گئے جب کہ ان مظاہروں کے پیش نظر وفاقی حکومت نے امن و امان کی خراب صورت حال پر قابو پانے کے لیے متعلقہ اسٹیک ہولڈرز سے بات چیت کے لیے ایک 16 رکنی کمیٹی بھی تشکیل دی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں