امریکی صحافی کو پاکستان آمد پر دوسری بار مشکلات کا سامنا

اپ ڈیٹ 21 اکتوبر 2022
2019 میں پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں اسٹیون بٹلر کو پاکستان میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی تھی — تصویر: سی پی جے ویب سائٹ
2019 میں پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں اسٹیون بٹلر کو پاکستان میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی تھی — تصویر: سی پی جے ویب سائٹ

کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے) کے ایشیا پروگرام کے کوآرڈینیٹر اور امریکی صحافی اسٹیون بٹلر کو گزشتہ چند سال میں دوسری مرتبہ پاکستان میں داخل ہوتے ہوئے پریشانی کا سامنا کرنا پڑا اور انہیں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے ایئرپورٹ پر 8 گھنٹے تک حراست میں رکھا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسٹیون بٹلر ویک اینڈ پر منعقد ہونے والی اس سال کی عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں بطور پینلسٹ شرکت کے لیے صوبائی دارالحکومت پہنچے۔

اس سے قبل 2019 میں بھی اسٹیون بٹلر کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کے دوران درست ویزا ہونے کے باوجود اسی کانفرنس میں شرکت کے لیے ملک میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی تھی کیونکہ ان کا نام پاکستان میں میڈیا ہاؤسز کے خلاف کریک ڈاؤن پر واشنگٹن پوسٹ میں کالم لکھنے پر بلیک لسٹ کردیا گیا تھا اور اگلی فلائٹ میں واپس امریکا بھیج دیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: سی پی جے کا حراست میں لیے گئے صحافی کو رہا کرنے کا مطالبہ

صحافی نے امریکا میں پاکستانی سفارت خانے کے جاری کردہ تصدیق نامہ عدم اعتراض (این او سی) کے ساتھ نیویارک سے لاہور کا سفر کیا، وہ جمعرات کی رات ایک بجے لاہور کے علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ پہنچے اور ایف آئی اے حکام نے انہیں صبح 9:30 بجے تک ایک چھوٹے سے کمرے میں حراست میں رکھا۔

کانفرنس کے منتظمین نے وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر داخلہ رانا ثنااللہ سے رابطہ کیا جس کے بعد اسٹیون بٹلر کو رہا کر دیا گیا۔

ڈان سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کے پاس پاکستان کا سفر کرنے کے لیے ایک درست ویزا، پاسپورٹ اور این او سی تھا لیکن انہیں لاہور ایئرپورٹ پر روک کر حراست میں لے لیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ مجھے حکام نے بتایا کہ میرا نام بلیک لسٹ میں ہے اور مجھے 8 گھنٹے ایک کمرے میں رہنا پڑے گا۔

مزید پڑھیں: سی پی جے کا حکومت سے ڈان، جنگ میڈیا گروپ کے سرکاری اشتہارات جاری کرنے کا مطالبہ

ان کا کہنا تھا کہ اہلکاروں نے انہیں بتایا کہ انہیں حکومت کی جانب سے یہ ہدایت نہیں دی گئی کہ ان کا نام بلیک لسٹ سے نکال دیا گیا ہے، اہلکاروں نے کمرے میں رہنے کی ہدایت کی ساتھ ہی کھانا اور پانی بھی فراہم کیا۔

سی پی جے کے عہدیدار نے کہا کہ یہ ایک غلط فہمی تھی، جسے دور ہونے میں آٹھ گھنٹے لگے، انہوں نے یہ بھی کہا کہ انہیں وزارت داخلہ کی طرف سے ایک کال موصول ہوئی ہے جس میں زحمت کے لیے ان سے معذرت کی گئی۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ اگر وزارت مجھے پاکستان جانے کی اجازت دینے کی ہدایات آگے پہنچا دیتی تو یہ واقعہ پیش نہ آتا۔

صحافی اور کانفرنس کی منتظم منیزے جہانگیر نے ڈان کو بتایا کہ ایف آئی اے حکام نے اپنے نظام کو اپ ڈیٹ نہیں کیا اور اسٹیون بٹلر، جو ایک سینئر صحافی ہیں، ان کو آٹھ گھنٹے تک ایئرپورٹ پر روکا اور ہراساں کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: 'مخالف آوازیں دبانے کی کوشش' پر صحافتی تنظیموں کا حکومتی اجلاس سے واک آؤٹ

انہوں نے کہا کہ اسٹیون بٹلر کے پاس این او سی تھا، لیکن اہلکاروں نے ان کی بات نہیں سنی اور انہیں ایک چھوٹے سے کمرے میں نظر بند کردیا گیا۔

رات کو جب یہ واقعہ پیش آیا تو ملکی حکام سو رہے تھے اور انہیں معاملے کو حل کرنے کے لیے صبح 9:30 بجے تک انتظار کرنا پڑا۔

دوسری جانب ملک کی میڈیا برادری نے بھی ایف آئی اے حکام کی کارروائی کی مذمت کی۔

سینئر صحافی حامد میر نے ٹوئٹ کیا کہ 'حیران کن! سی پی جے کے اسٹیون بٹلر کو واشنگٹن میں پاکستانی ایمبیسی سے ویزا جاری ہونے کے باوجود امیگریشن کے ذریعے لاہور ایئرپورٹ پر حراست میں لے لیا گیا'۔

مزید پڑھیں: پاکستان میں 22-2021 کے دوران صحافیوں پر حملوں کے 86 واقعات رپورٹ

حامد میر نے مزید کہا کہ انہیں عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں مدعو کیا گیا تھا، عمران خان کے برسراقتدار ہونے پر انہیں بھی اسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا تھا، کچھ تبدیل نہیں ہوا۔

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کے سابق صدر اور سینئر صحافی مظہر عباس نے کہا کہ 'یہ شرمناک ہے کہ سی پی جے کے اسٹیون بٹلر کو لاہور ایئرپورٹ پر حراست میں لیا گیا'۔

تبصرے (0) بند ہیں