پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ افغانستان میں حکومت قائم ہونے کے بعد میری رائے یہ ہے کہ پاکستان کے مفادات کی بنیاد پر ہمیں افغانستان کی امارت اسلامیہ کو تسلیم کر لینا چاہیے تاکہ باہمی تعلقات کی بنیاد پر ہم پاکستان کے مفادات کا تحفظ کر سکیں۔

ڈیرہ اسمٰعیل خان میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے دوستانہ اور مضبوط تعلقات کے خواہاں ہیں، افغان طالبان اور ان کی 20 سالہ قربانیوں کے نتیجے میں امارت اسلامیہ کا قیام ہوا ہے، اور بڑی قوتوں نے اعتراف کرلیا ہے کہ افغانستان پر جبری حکومت نہیں کی جاسکتی۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر اس میں کوئی رکاوٹ ہے، کچھ چیزیں جو باہمی عدم اعتماد کا سبب بن رہی ہیں، یا افغانستان کی امارت اسلامیہ کی طرف سے پاکستان کے لیے یا ہماری طرف سے امارت اسلامیہ کے لیے، اس کا حل میرے ذہن میں یہ ہے کہ معلومات کے تبادلے کا نظام ہونا چاہیے، تو ہم باہمی عدم اعتماد کو روک سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: اسرائیل اور را کے ایجنٹ کو پاکستان میں سیاست نہیں کرنے دیں گے، مولانا فضل الرحمٰن

’سیاسی، معاشی عدم استحکام پیدا کرنے والوں سے کسی قسم کے سمجھوتے کیلئے تیار نہیں‘

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ پاکستان کو معاشی اور سیاسی استحکام کی ضرورت ہے، جو لوگ سیاسی طور پر ملک میں سیاسی اور معاشی عدم استحکام پیدا کر رہے ہیں، ان سے کسی قسم کے سمجھوتے کے لیے تیار نہیں، 2017 سے بین الاقوامی قوتوں کی مداخلت کے ساتھ سیاسی عدم استحکام پیدا کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ 2018 میں تاریخ کی بدترین دھاندلی کے نتیجے ملک پر جعلی حکمراں مسلط کیا گیا، جس نے ملکی معیشت کو تباہ و برباد کردیا، آئی ایم ایف سے ایسے معاہدے کیے جن کے نتیجے میں پاکستان کو عالمی مالیاتی ادارے کے نام گروی رکھ دیا گیا، اسٹیٹ بینک آف پاکستان اس کی آزادی کے نام پر آئی ایم ایف کے حوالے کردیا گیا، آج پاکستان کا اسٹیٹ بینک اور اس کا گورنر نہ ملک کے وزیر اعظم کو جوابدہ ہے اور نہ ہی ملک کی کابینہ اور پارلیمنٹ کو جوابدہ ہے۔

پی ڈی ایم کے سربراہ نے کہا کہ جب چین کے صدر پاکستان آرہے تھے اس موقع پر دھرنے دیے گئے، اور کوشش کی گئی کہ چین جیسا پاکستان کا دوست پاکستان میں سرمایہ کاری نہ کرسکے، اس کوشش کو ناکام بنایا گیا، ملک کو بچایا گیا۔

مزید پڑھیں: آرمی چیف کے تقرر کا فیصلہ وزیراعظم کوآئین کے مطابق کرنا ہے، مولانا فضل الرحمٰن

ان کا کہنا تھا کہ آج جب پاکستان کا وزیر اعظم چین کے سفر پر چلا گیا ہے اور وہاں پر پاکستان میں سرمایہ کاری پر بات کر رہا ہے، اس موقع پر وہ اسلام آباد میں مسلح طور پر داخل ہونے کی بات کر رہے ہیں، ان کے وزرا ایسی گفتگو کر رہے ہیں کہ جیسے پی ٹی آئی کوئی دہشت گرد تنظیم ہو، جو سیاست اور دلیل پر یقین نہیں رکھتی، وہ حکومت کو بلیک میل کرنا چاہتے ہیں۔

‘ان کا لانگ مارچ ٹھس ہو چکا ہے’

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ اپنے وزیراعظم کو پیغام دینا چاہتا ہوں کہ عمران خان کو کوئی فیس سیونگ نہیں دینی، کسی قسم کی کوئی مفاہمت نہیں کرنی، ان کا لانگ مارچ ٹھس ہو چکا ہے، اب اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے، وہ 2 ہزار سے زائد لوگ اکٹھے نہیں کر پارہے ہیں، اسلام آباد میں آنے کے لیے تاریخ پہ تاریخ دے رہے ہیں، میرا خیال یہ ہے کہ یہ راستے سے واپس ہو جائیں گے، یہ اسلام آباد آنے کے متحمل نہیں۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ اسلحہ پہنچا رہے ہیں، تاکہ کچھ لاشیں گریں اور ان لاشوں پر وہ سیاست کرے، یہ ہے سیاست؟ یہ ہے جمہوریت؟

ان کا کہنا تھا کہ بنیادی چیز یہ ہے کہ جمہوری نظام میں سیاسی استحکام ناگزیر عمل ہے، سیاسی استحکام ہوگا تو معاشی استحکام آئے گا، اس کے بعد آئین اور قانون کی بالادستی ہوگی۔

‘عدالت کی کنفیوژن سے عوام کا اعتماد عدلیہ پر ختم ہوجائے گا’

سربراہ جے یو آئی (ف) نے کہا کہ ہم آئین اور قانون کے حوالے سے بھی اپنے تحفظات واضح کر دینا چاہتے ہیں، الیکشن کمیشن میں بھی جج صاحبان اور آئین و قانون کے ماہرین بیٹھے ہیں، وہ آئین و قانون کے حوالے سے ایک فیصلہ کرتے ہیں، وہی کیس جب عدالت میں جاتا ہے، تو وہاں دوسرا فیصلہ آجاتا ہے، ایک زمانے میں وہی عدالت اسی قانون کے تحت ایک طرح کا فیصلہ دیتی ہے، ایک زمانہ گزر جاتا ہے پھر دوسرا فیصلہ آجاتا ہے، عدالت کی جانب سے کنفیوژن پیدا کی جارہی ہے، اس سے عوام کا اعتماد عدلیہ پر ختم ہوجائے گا، اور پھر عدلیہ اس اعتماد کو بحال کرنے میں انتہائی مشکل محسوس کرے گی۔

مزید پڑھیں: وزیراعظم ہاؤس سے آڈیو لیک ہونا باعث تشویش ہے، مولانا فضل الرحمٰن

ان کا کہنا تھا کہ اس بارے میں آئین و قانون کی بالادستی اور حقائق تک پہنچنے کے حوالے سے بھی رعایتیں کریں، اور ہم جانتے ہیں کہ اس وقت اداروں کے اندر کچھ لوگ کیوں وفادار بن گئے ہیں، لاڈلے پن کی سیاست ختم ہونی چاہیے، چاہے فوج میں ہو، عدلیہ میں ہو، چاہے الیکشن کمیشن میں ہو، آئین اور قانون کی بالادستی ہونی چاہیے۔

پی ڈی ایم کے سربراہ نے بتایا کہ ایک عدالت کہتی ہے کہ وزیر اعظم کون ہوتا ہے کہ حرم نبویؐ کی توہین کرنے والوں کو معاف کرتا ہے، اور دوسری عدالت اسی قانون و آئین کے تحت کہتی ہے کہ یہ تو سعودی عرب کا معاملہ ہے، وہ جانے ان کا کام جانے، ہمارا اس سے کیا تعلق، ان تضادات کے ہوتے ہوئے قوم کیسے اعتماد کرے گی؟

‘صدف نعیم کا حادثہ، مطالبہ کرتا ہوں عدالتی کمیشن بٹھایا جائے’

صحافی صدف نعیم کے حادثے کی بابت ان کا کہنا تھا کہ آج ان کے جلوس میں صدف نعیم کا جو حادثہ ہوا ہے، اس پر مطالبہ کرتا ہوں کہ عدالتی کمیشن بٹھایا جائے، یہ حادثاتی طور پر کسی کی دھکم پیل سے گری ہے، یا کسی ہراسانی کی بنیاد پر گری ہے، اور پھر ایک صوبائی وزیر فوری طور پر ان کے خاوند کو تھانے میں لے جاتا ہے، اور وہاں ان سے انگوٹھے لگوا کر دستخط لیتا ہے، تو پھر معاملہ اور بھی مشکوک ہو جاتا ہے، لہٰذا عدالتی تحقیقاتی کمیشن ہونا چاہیے۔

‘ارشد شریف معاملے میں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کو شامل تفتیش کیا جائے’

انہوں نے کہا کہ مقتول صحافی ارشد شریف کے بارے میں یہی کہنا چاہتا ہوں کہ وہ پاکستان کا بیٹا ہے، ہم ان کے خاندان کے صدمے میں شریک ہیں لیکن یہ بتایا جائے کہ وہ کن بنیادوں پر کس کی پشت پناہی کے ساتھ پاکستان سے باہر گیا، تھریٹ لیٹر کس نے جاری کیا، اس کی صرف ایک کاپی ہے جو وزیر اعلیٰ کے پاس ہے، اس لیے خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ کو شامل تفتیش کیا جائے، اس پر بھی عدالتی کمیشن قائم کیا جائے۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ پہلی مرتبہ ریاستی ادارے کیوں میدان میں آئے، ریاستی ادارے کیوں پھٹ پڑے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ ریاست کو خطرہ ہوا ہے، ان کے اقدامات سے سیاسی و معاشی عدم استحکام آیا، آئین و قانون اور اداروں پر اعتماد ختم ہو رہا ہے، اس لیے ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈی جی آئی ایس پی آر میدان میں آئے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہماری افراد سے نہیں ادارے سے شکایات رہی ہیں، اگر وہ اعتراف کرتے ہیں کہ ہم سے غلطیاں ہوئی ہیں اور ہم تلافی کرنا چاہتے ہیں اور خون دے کر تلافی کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں ان کا راستہ نہیں روکنا چاہیے، ہم کوئی ایسے جملے نہ استعمال کریں کہ تلافی کی طرف جانے کا سفر متاثر ہو۔

پی ڈی ایم کے سربراہ نے کہا کہ ہم بھی آپ (عمران خان) سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ اس بات کی وضاحت کیوں نہیں کرتے کہ رات کی تاریکی میں پاؤں کیوں پکڑ رہے تھے؟

یہ بھی پڑھیں: نااہلی کا یہ سلسلہ ختم ہونا چاہیے، مولانا فضل الرحمٰن

ان کا کہنا تھا کہ یہ چاہتا ہے کہ میری مرضی کا آرمی چیف آئے، اور اگر میری مرضی کا نہیں آتا تو مارشل لا لگ جائے، ایسے حالات پیدا کرنا کہ وہ برتن میں کوئی حصہ نہیں دے رہا تو برتن کو توڑ دینے کی بات کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس قوم کو گمراہ نہیں ہونے دیں گے، اس فتنے کا مقابلہ کر رہے ہیں، اور عزم ہے کہ جب تک اس فتنے کا خاتمہ نہیں ہوگا ہم چین سے نہیں بیٹھیں گے۔

‘الطاف حسین کے خلاف کبھی ریاستی ادارے میدان میں نہیں آئے’

الطاف حسین سے متعلق سوال کے جواب میں مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ الطاف حسین کی تمام تقاریر، گفتگو ہمارے میڈیا پر بلاک ہے لیکن کبھی اس کے خلاف ریاستی ادارے میدان میں نہیں آئے، آج اس کے خلاف کیوں ضرورت پڑ گئی۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں جو نئی صورتحال بنتی جارہی ہے، اس سے لوگوں میں عدم تحفظ کا احساس بڑھ رہا ہے، ہم ہر پاکستانی کو پُرامن اور باعزت زندگی کا حق دینا چاہتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں