علی امین گنڈاپور کے خلاف درج 13 مقدمات خارج کرنے کا حکم

اپ ڈیٹ 28 نومبر 2022
علی امین گنڈاپور نے تھانہ آئی نائن، سی ٹی ڈی کی ایف آئی آر کے اخراج کی درخواستیں  واپس لے لیں— فائل فوٹو: امیجز
علی امین گنڈاپور نے تھانہ آئی نائن، سی ٹی ڈی کی ایف آئی آر کے اخراج کی درخواستیں واپس لے لیں— فائل فوٹو: امیجز

اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وفاقی وزیر اور پی ٹی آئی کے سینئر رہنما علی امین گنڈاپور کے خلاف مختلف تھانوں میں درج 13 مقدمات خارج کرنے کا حکم دے دیا۔

علی امین گنڈاپور کے خلاف یہ مقدمات پارٹی کے 25 مئی کے لانگ مارچ کے دوران جلاؤ گھیراؤ، کار سرکار میں مداخلت اور الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف احتجاج پر درج کیے گئے تھے جن کے خلاف انہوں نے عدالت عالیہ سے رجوع کیا تھا۔

سابق وفاقی وزیر اور پی ٹی آئی کے سینئر رہنما علی امین گنڈاپور کی 15 سے زائد مختلف کیسز میں اخراج مقدمہ کی درخواستوں پر سماعت ہوئی، جسٹس طارق محمود جہانگیری نے کیس کی سماعت کی۔

دوران سماعت اسلام آباد کے مختلف تھانوں کے انسپکٹر اور ڈی ایس پی لیگل عدالت میں پیش ہوئے، جسٹس طارق محمود جہانگیری نے استفسار کیا کہ علی امین کے خلاف کیا کیا کیسز ہیں اور الزامات کیا ہیں، ان کے ثبوت پیش کریں، سرکاری وکیل نے جواب دیا کہ 25 مئی کے لانگ مارچ و دیگر کیسز ہیں، علی امین گنڈاپور کے خلاف چالان جمع ہوگیا ہے۔

جسٹس طارق محمود جہانگیری نے ریمارکس دیے کہ ایک ایک کر کے سنتے ہیں، تھانہ بہارہ کہو ایف آئی آر پڑھیں، آپ نے لکھا علی امین کی ایما پر جلاؤ گھیراؤ ہوا، ایما کے کیا ثبوت ہیں، اس دوران علی امین گنڈاپور کے خلاف ثبوت پیش نہ کرنے پر ہائی کورٹ نے اسلام آباد پولیس پر اظہار برہمی کیا، عدالت نے تھانہ آبپارہ، سیکریٹریٹ اور کورال کے پولیس افسران پر برہمی کا اظہار کیا۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ الزامات کیا ہیں، زبانی بات مت کریں، ثبوت دیں، جو سوال کیا ہے اسی کا جواب دیں، جسٹس طارق محمود جہانگیری نے کہا کہ علی امین کی تقاریر موجود ہیں، ثبوت بتائیں، زبانی نہیں، ڈاکو ہے، چور ہے، فلاں ہے، فلاں ہے، ایسا نہیں، ثبوت دیں، ویڈیو دیں، ٹرانسکرپٹ دیں، ڈی ایس پی صاحب آپ سینئر آدمی ہیں، جب ثبوت نہیں تو لکھا کیوں ہے ثبوت کا۔

پولیس نے مؤقف دیتے ہوئے کہا کہ کیس سے متعلق یو ایس بی ہمارے پاس ہے، جسٹس طارق محمود جہانگیری نے کہا کہ یو ایس پی ثبوت نہیں ہوتا ٹرانسکرپٹ ہے آپ کے پاس، ثبوت بتائیں فضول باتیں نہ کریں، اس دوران تھانہ آبپارہ پولیس افسر نے استدعا کی ایک ہفتے کا وقت دیں، جس پر جسٹس طارق محمود جہانگیری نے کہا کہ بالکل کوئی وقت نہیں، جب ثبوت نہیں تھے تو عدالت کیوں آئے ہیں۔

عدالت نے کہا کہ ہائی کورٹ کا آرڈر تھا آپ کو رات نیند نہیں آنی چاہیے تھی اور سب چیزیں پوری کر کے عدالت آتے، کیا اس طرح سے آپ لوگ پرچے دیتے ہیں، عدالت نے تھانہ آبپارہ کے انسپکٹر کو ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ یہاں بیٹھ کر مجھے ثبوت ڈھونڈ کر دیں، جسٹس طارق محمود جہانگیری نے کہا کہ اگر ثبوت نہیں دیے تو آج ہی آپ کے خلاف میں کارروائی کرتا ہوں، درخواست گزار کے ساتھ ہماری کوئی ہمدردی نہیں ہے، لیکن کسی کے خلاف جھوٹا کیس نہیں ہونا چاہیے۔

دوران سماعت تھانہ کھنہ پولیس کا کوئی افسر عدالت میں پیش نہیں ہوا، جسٹس طارق محمود جہانگیری نے کہا کہ کہاں ہیں تھانہ کھنہ والے، انہیں فون کر کے ابھی بلائیں، تھانہ کھنہ کے ایس ایچ او کو تفتیشی ریکارڈ سمیت فوری عدالت طلب کرلیا گیا، اس موقع پر جسٹس طارق محمود جہانگیری نے کہا کہ باقی تھانوں کے تفتیشی افسر اپنے کیس کا بتائیں۔

عدالتی حکم پر تھانہ کھنہ پولیس کے افسران عدالت میں پیش ہوگئے، جسٹس طارق محمود نے کہا کہ تھانہ کھنہ کے کیس میں تو علی امین گنڈاپور کا نام ہی نہیں، عدالت نے تھانہ کھنہ سے متعلق درخواست غیر مؤثر ہونے پر خارج کردی۔

فریقین کے دلائل سننے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے علی امین گنڈاپور کے خلاف 13 مقدمات خارج کرنے کا حکم دے دیا جب کہ تھانہ آئی نائن، سی ٹی ڈی کی ایف آئی آر کے اخراج کی درخواستیں علی امین گنڈاپور نے واپس لے لیں۔

واضح رہے کہ 25 مئی کو اسلام آباد کے ڈی چوک پر لانگ مارچ کے دوران جلاؤ گھراؤ اور توڑ پھوڑ کرنے کے الزامات پر پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان، اسد عمر، سابق گورنر سندھ عمران اسمٰعیل سمیت 150 کے خلاف مقدمات درج کیے گئے تھے۔

تھانہ کوہسار پولیس نے دو مقدمات میں 39 افراد کی گرفتاری ظاہر کی تھی، ایف آئی آر کے متن کے مطابق گرفتار افراد نے عمران خان سمیت دیگر رہنماؤں اسد عمر، عمران اسمٰعیل، راجا خرام نواز، علی امین گنڈاپور اور علی نواز اعوان کی ایما پر سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا۔

ایف آئی آر میں مزید کہا گیا کہ مظاہرین کی جانب سے جناح ایونیو پر میٹرو اسٹیشن کو آگ لگائی گئی جب کہ ایکسپریس چوک پر سرکاری گاڑی کو نقصان پہنچایا گیا۔

دونوں ایف آئی آرز 25 مئی کی رات پی ٹی آئی کے آزادی مارچ کے دوران اسلام آباد کی سڑکوں پر پیش آنے والے واقعات سے متعلق تھیں جب پی ٹی آئی کے کارکنان اور حامی پولیس کی شدید شیلنگ کے بعد ڈی چوک پر موجود تھے۔

ٹیلی ویژن فوٹیج میں اسلام آباد کی مرکزی شاہراہوں سے ملحقہ گرین بیلٹس پر موجود درختوں میں آگ لگتی دکھائی دے رہی تھی۔

حکومت کا دعویٰ تھا کہ گرین بیلٹس پر آگ پی ٹی آئی کے حامیوں نے لگائی جب کہ پی ٹی آئی کے رہنماؤں نے دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ آگ پولیس کی شیلنگ کا نتیجہ تھی، تاہم ان دونوں دعووں میں سے کسی بھی دعوے کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں ہو سکی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں