پشاور: سربند تھانے پر دہشتگرد حملہ، ڈی ایس پی سمیت 3 اہلکار شہید

اپ ڈیٹ 14 جنوری 2023
سینیئر سپرنٹنڈنٹ پولیس آپریشنز پشاور نے بتایا کہ سربند تھانے پر رات گئے دہشت گردوں نے حملہ کیا تھا—فوٹو: ڈان نیوز
سینیئر سپرنٹنڈنٹ پولیس آپریشنز پشاور نے بتایا کہ سربند تھانے پر رات گئے دہشت گردوں نے حملہ کیا تھا—فوٹو: ڈان نیوز
سینیئر سپرنٹنڈنٹ پولیس آپریشنز پشاورنے کہا کہ پشاور پولیس نے کامیابی کے ساتھ حملے کو ناکام بنا دیا—فوٹو: ڈان نیوز
سینیئر سپرنٹنڈنٹ پولیس آپریشنز پشاورنے کہا کہ پشاور پولیس نے کامیابی کے ساتھ حملے کو ناکام بنا دیا—فوٹو: ڈان نیوز

پشاور کے نواحی علاقے سربند میں تھانے پر تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے دہشت گرد حملے کے نتیجے میں ڈی ایس پی بڈھ بیر اور ان کے 2 گن مین شہید ہو گئے۔

سینیئر سپرنٹنڈنٹ پولیس آپریشنز پشاور کاشف عباسی نے صحافیوں کو واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ’بڈھ بیر کے علاقے میں واقع سربند پولیس اسٹیشن پر رات گئے دہشت گردوں نے حملہ کیا تھا‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس سردار حسین اور ان کے 2 محافظ ارشاد اور جہانزیب دہشت گردوں کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں جان کی بازی ہار گئے‘۔

انہوں نے کہا کہ متعدد ہتھیاروں کا استعمال کرتے ہوئے کیا گیا یہ حملہ انتہائی مربوط تھا جو متعدد سمتوں سے کیا گیا اور اس میں ہینڈ گرنیڈ، اسنائپر شاٹس اور خودکار بندوقوں کا استعمال کیا گیا’۔

انہوں نے کہا کہ پشاور پولیس نے کامیابی کے ساتھ حملے کو ناکام بنا دیا، مقتول پولیس افسر نے فرار ہونے والے دہشت گردوں کا پیچھا کیا اور انہیں گھیرنے کی کوشش کی لیکن فائرنگ کے تبادلے میں وہ اور دیگر 2 پولیس اہلکار جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، حملے کے بعد مسلح دہشت گرد اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔

خیال رہے کہ سربند تھانہ قبائلی ضلع خیبر کے علاقے باڑہ کے قریب واقع ہے، حملے کے بعد پولیس کی اضافی نفری کو علاقے میں بھیج دیا گیا تھا، رات بھر سرچ آپریشن کے بعد آج صبح دوبارہ آپریشن شروع کیا گیا۔

پولیس نے بتایا کہ ’ملزمان کی گرفتاری کے لیے آج صبح سربند اور آس پاس کے علاقوں میں سرچ آپریشن شروع کردیا گیا‘، تاحال کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔

کاشف عباسی نے کہا کہ ’مسلح دہشت گرد افغانستان کی سرحد سے متصل قبائلی ضلع خیبر سے آئے تھے‘۔

شہید پولیس اہلکاروں کی نماز جنازہ پشاور میں ادا کردی گئی جس میں اعلیٰ پولیس اور فوجی حکام نے بھی شرکت کی۔

دریں اثنا کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے سربند پولیس اسٹیشن پر حملے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔

وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے سربند تھانے پر دہشت گردوں کے حملے کی شدید مذمت کی ہے۔

’ریڈیو پاکستان‘ کے مطابق ایک بیان میں رانا ثنا اللہ نے واقعے میں پولیس اہلکاروں کی شہادت پر دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ان کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کیا۔

انسپکٹر جنرل پولیس خیبرپختونخوا معظم جاہ انصاری نے دہشت گردی کے حملے کو بہادری کے ساتھ پسپا کرنے پر پولیس کو سراہتے ہوئے زور دیا کہ ’اس جنگ میں ہم سب ایک ساتھ ہیں‘۔

آئی جی خیبرپختونخوا نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مقتول ڈی ایس پی نے شہباز خیل پر اپنی گاڑی کھڑی کی اور پیدل جائے وقوع پر آنے کی کوشش کی، غیرواضح صورتحال میں ہمارے پاس دہشت گردوں کو دیکھنے کے لیے آلات نہیں تھے، تھرمل سائٹس کا استعمال پشاور میں پہلی دفعہ ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت نے تھرمل ہتھیاروں کی سائٹس کی فراہمی کے لیے فنڈز جاری کر دیے ہیں جن میں سے 40 موصول ہو چکے ہیں، آدھے ڈیرہ اسمعٰیل خان اور باقی بنوں بھیجے دیے گئے ہیں۔

آئی جی خیبرپختونخوا نے بتایا کہ ’تھرمل سائٹس ہتھیاروں کے اوپر لگائے جاتے ہیں جس کی بدولت دور تک نظر آجاتا ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ سیف سٹی پراجیکٹ میں بہت پیش رفت ہوئی ہے، ہم نے سیف سٹی کے لیے ایک معاہدے پر دستخط بھی کردیے ہیں، فیز ون رواں برس جون تک مکمل ہوجائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ شہر کے تھانوں میں کیمرے اپنی مدد آپ کے تحت لگائے گئے ہیں۔

واضح رہے کہ نومبر میں جنگ بندی ختم کرنے کے بعد سے ٹی ٹی پی نے حملوں میں اضافہ کردیا ہے اور عسکریت پسندوں کو ملک بھر میں حملے کرنے کا حکم دے دیا۔

رواں ماہ 8 جنوری کو پشاور میں تھانہ انقلاب کی حدود میں رکن قومی اسمبلی ناصر خان موسی زئی کے گھر پر نامعلوم شرپسندوں نے دستی بم حملہ کیا، ترجمان پشاور پولیس نے بتایا کہ ملزمان نے گھر کے احاطے میں حجرے (گیسٹ ہاؤس) کو نشانہ بنایا جس سے دیوار کو جزوی نقصان پہنچا اور قریبی کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹ گئے تھے۔

اس سے ایک روز قبل 7 جنوری کو خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں میں عسکریت پسندوں نے پولیس موبائل پر دستی بم حملہ کیا تھا جس کے نتیجے میں ایک پولیس اہلکار جاں بحق اور دوسرا زخمی ہو گیا تھا۔

کالعدم ٹی ٹی پی کی جانب سے 28 نومبر 2022 کو سیز فائر کے خاتمے کے بعد بنوں میں دہشت گردی کے واقعات سب سے زیادہ ہوئے ہیں۔

گزشتہ برس 8 دسمبر کو ضلع بنوں میں کنگر پل کے قریب چیک پوسٹ پر دہشت گردوں کے حملے میں ایک پولیس اہلکار جاں بحق ہوگیا تھا۔

بعد ازاں 18 دسمبر کو بنوں میں محکمہ انسداد دہشت گردی کے مرکز میں قید دہشت گردوں نے تفتیش کاروں کو یرغمال بنا کر اپنی بحفاظت رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔

سال 2022 کے دوران خیبرپختونخوا میں امن و امان کی مجموعی صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد محکمہ پولیس نے جنوبی اور شمالی وزیرستان، لکی مروت اور بنوں کے اضلاع کو دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثرہ مقامات قرار دیا تھا۔

رپورٹ کے مطابق 2022 میں پولیس کے خلاف ٹارگیٹڈ حملوں میں بھی اضافہ ہوا، دہشت گردوں سمیت جرائم پیشہ افراد کے خلاف کارروائیوں میں 118 پولیس اہلکار شہید اور 117 زخمی ہوئے۔

تبصرے (1) بند ہیں

حیدر Jan 14, 2023 01:20pm
مادر وطن کے بہادر سپوتوں کو سلام۔ جب تک ظالمان کا آخری بچہ 'پڑھ' کر مہذب نہیں ہوجاتا ، فساد ختم نہیں ہو گا ۔