کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت نے نقیب اللہ محسود قتل کیس کا تحریری فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلامی اور یونیورسل اصول کے تحت شکوک وشہبات کا فائدہ ملزم کے حق میں جاتا ہے، اس لیے راؤ انوار اور دیگر 17 ملزمان کو بری کیا جاتا ہے۔

تحریری فیصلے کے مطابق عدالت نے سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوا سمیت 18 ملزمان کو مقدمے سے بری کردیا جبکہ عدالت نے7 مفرور ملزمان کے دائمی وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کا حکم دیا۔

مفرور ملزمان میں امان اللہ مروت،گدا حسین، محسن عباس، صداقت حسین شاہ، راجہ شمیم مختار، رانا ریاض اور شعیب عرف شوٹر شامل ہیں۔

تحریری فیصلے میں عدالت کا کہنا تھا کہ مقدمے میں شکوک و شہبات پائے گئے ، اسلامی اور یونیورسل اصول کے تحت شکوک وشہبات کا فائدہ ملزم کے حق میں جاتا ہے۔

انسداد دہشت گردی عدالت کے جج نے تحریری فیصلہ میں تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ یہ اصول ہے کہ قاضی کی غلطی سے سزا دینے سے اس کی بریت بہتر فیصلہ ہے، عدالت کی نظر میں استغاثہ کیس ثابت نہیں کرسکی لہٰذا ملزمان کو بری کیا جاتا ہے۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز 24 جنوری کو کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت نے نقیب اللہ قتل کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے سابق ایس ایس پی راؤ انوار سمیت تمام ملزمان کو بری کردیا تھا۔

انسداد دہشت گردی کی عدالت نے 14 جنوری کو کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا جس کی سماعت مکمل ہونے میں 5 برس لگے، یہ التوا سوشل میڈیا پر کراچی میں جعلی مقابلوں کے حوالے سے بحث اور خاص طور پر اس کیس سے جڑے سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار پر تنقید کا سبب بن تھا۔

جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے ماڈل نقیب اللہ محسود کراچی میں مقیم تھے، ان کے قتل نے سوشل میڈیا پر عوام کی جانب سے غم و غصے کو جنم دیا اور سابق ایس ایس پی اور ان کی ٹیم کی گرفتاری میں ریاست کی ناکامی کے خلاف سول سوسائٹی کی جانب سے ملک گیر احتجاج کا سبب بنا تھا۔

تاہم انسداد دہشت گردی کی جانب سے آج جاری ہونے والے تحریری فیصلہ میں بتایا گیا کہ سماعت کے دوران ملزمان کے وکیل نے کہا کہ استغاثہ کے مقدمہ میں شکوک وشہبات ہیں، جس کے تحت اس کا فائدہ ملزمان کے حق میں جاتا ہے جو دنیا کا اصول ہے۔

وکیل نے کہا کہ ملزمان کے خلاف براہ راست کوئی شواہد نہیں ہیں، ملزمان کے خلاف سی ڈی آر گواہی کے طور پر پیش کی گئی، راؤ انوار کو اس مقدمہ میں پیشہ وارانہ بغض کی بنیاد پر پھنسایا گیا

ملزمان کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ کسی گواہ نے راؤ انوار کی شناخت نہیں کی۔

عدالت کے تحریری فیصلہ میں بتایا گیا کہ تفتیشی افسر ڈاکٹر رضوان کے مطابق کسی بھی ملزم کے موبائل فون کی فرانزک نہیں کرائی گئی۔

کیس کے تفتیشی افسر ڈاکٹر رضوان کا کہنا تھا کہ ریکارڈ کے مطابق راؤ انوار کی لوکیشن وقوع کے وقت ملیر کینٹ تھی، ہم نے لوکیشن جاننے کی تفصیل سے متعلق ان کمپنیوں سے رابطہ نہیں کیا گیا۔

ڈاکٹر رضوان نے کہا کہ مقتول نقیب اللہ محسود سمیت دیگر کو سہراب گوٹھ ہوٹل سے اٹھانے سے متعلق چشم دید گواہوں کی سی ڈی آر موصول نہیں ہوئی۔

انہوں نے بتایا کہ پولیس ٹیم نے بہاولپور جاکر واقعے میں قتل ہونے والے محمد اسحٰق کے بھائی اور دیگر کے بیانات ریکارڈ کیے۔

تحریری فیصلہ میں بتایا گیا کہ پولیس ٹیم کی رپورٹ میں بیانات کے مطابق محمد اسحٰق کو 10 اپریل 2016 کو پنجاب پولیس نے گرفتار کیا۔

اس کے علاوہ پولیس ٹیم نے بتایا کہ واقعے میں دوسرے مقتول صابر کے رشتے داروں نے بتایا کہ وہ 10نومبر 2016 کو پنجاب پولیس نے گرفتار کیا۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز عدالت کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے سابق ایس ایس پی راؤ انوار نے کہا تھا کہ نقیب اللہ کیس جھوٹ کی بنیاد پر بنایا گیا کیونکہ اس شخص کا نام نقیب اللہ نہیں بلکہ نسیم اللہ تھا جو پولیس کو مطلوب تھا۔

کراچی میں کمرہ عدالت سے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ جھوٹا کیس بناکر ملک اور کراچی کا نقصان کیا گیا مگر آج ہم بری ہوگئے اور کسی کو بھی اس میں سزا نہیں ہوئی۔

انہوں نے کہا کہ پولیس سروس میں میرا ایک سال ابھی بھی ہے، میں چاہوں گا کہ مجھے موقع دیا جائے تاکہ میں کراچی شہر کی بھرپور خدمت کر سکوں۔

تبصرے (0) بند ہیں