کوہاٹ: ڈیم میں کشتی الٹنے سے جاں بحق طلبہ کی تعداد 51 ہوگئی

اپ ڈیٹ 31 جنوری 2023
آج ملنے والی لاشوں میں ایک ہی خاندان کے 5 بچے بھی شامل ہیں — فوٹو: سراج الدین
آج ملنے والی لاشوں میں ایک ہی خاندان کے 5 بچے بھی شامل ہیں — فوٹو: سراج الدین

صوبہ خیبرپختونخوا کے علاقے کوہاٹ میں واقع تاندہ ڈیم میں کشتی الٹنے کے سانحہ میں جاں بحق ہونے والے طلبہ کی تعداد 51 ہوگئی ہے۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے بیان میں کہا کہ پاک فوج نے ڈیم میں ریسکیو اور ریلیف کی کارروائی کی۔

بیان میں کہا گیا کہ جوانوں نے ریسکیو 1122 اور سول انتظامیہ کے ساتھ 5 طلبہ کو زندہ نکال لیا جبکہ پاک فوج کے انجینئرز اور اسپیشل سروسز گروپ کے تیراکوں نے جاں بحق ہونے والے 51 بچوں اور اساتذہ کو نکال لیا۔

بیان میں کہا گیا کہ زندہ بچالیے گئے طلبہ کو کوہاٹ ڈسٹرکٹ ہسپتال منتقل کردیا گیا جبکہ ایک لاپتہ طالب علم کی تلاش جاری ہے۔

رییسکیو 1122 ڈسٹرکٹ ایمرجنسی افسر جواد خلیل نے بتایا کہ ڈیم میں ریسکیو اور سرچ آپریشن تاحال جاری ہے کیونکہ 4 طلبہ اب تک لاپتا ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ آج ملنے والی لاشوں میں کشتی چلانے والے ملاح اور اس کے خاندان کے 3 افراد بھی شامل ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ آج ملنے والی لاشوں میں ایک ہی خاندان کے 5 بچے بھی شامل ہیں۔

خیال رہے کہ 2 روز قبل تاندہ ڈیم میں سیر کے لیے آنے والے مدرسے کے طلبہ کی کشتی الٹنے سے تقریباً 11 بچے جاں بحق ہوگئے تھے۔

ترجمان ضلعی انتظامیہ نے بتایا تھا کہ تمام بچے مدرسے کے طالب علم تھے جو تفریح کے لیے ڈیم آئے تھے۔

ریسکیو اور امدادی ٹیموں نے موقع پر پہنچ کر آپریشن شروع کردیا تھا، گزشتہ روز بھی آپریشن کے دوران 20 بچوں کی لاشیں نکالی گئی تھی جبکہ آج مزید 20 طلبہ کی لاشیں نکال لی گئی ہیں۔

ایف آئی آر درج

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق میر بخش خیل مدرسہ کے نگران شاہد نور نے بتایا کہ کشتی الٹنے کے وقت مدرسے کے کم از کم 59 بچے سوار تھے۔

شاہد نور اس سانحے میں محفوظ رہے لیکن انہوں نے اپنے 2 بیٹوں اور 4 بھتیجوں کو کھو دیا۔

دریں اثنا گزشتہ روز صبح مدرسے کے 17 طلبہ کی نماز جنازہ ادا کردی گئی جس میں کمشنر کوہاٹ ڈویژن، ڈپٹی کمشنر، ڈسٹرکٹ پولیس افسر، آرمی حکام اور اہل علاقہ کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔

دوسری جانب مدرسے کے نگراں شاہد نور نے محکمہ آبپاشی کے اہلکاروں کے خلاف غفلت برتنے پر ایف آئی آر درج کروا دی۔

ایف آئی آر میں انہوں نے اس واقعے کے لیے ایگزیکٹو انجینئر، سب ڈویژنل افسر اور محکمہ آبپاشی کے ایک سب انجینئر کو ذمہ دار ٹھہرایا۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ جھیل پر کوئی غوطہ خور یا ریسکیو ایمرجنسی انتظامات نہیں تھے، کشتی شمال کی جانب گئی لیکن جھیل کے مرکز تک پہنچنے کے بعد اوورلوڈنگ کی وجہ سے الٹ گئی۔

دریں اثنا علاقہ مکینوں نے واقعے پر احتجاجی مظاہرہ کیا جس میں ڈپٹی کمشنر کی معطلی کا مطالبہ کیا گیا کیونکہ وہ جھیل پر ایس او پیز فراہم کرنے میں ناکام رہے جن میں غوطہ خور، ریسکیو 1122 یونٹس اور لائف جیکٹس بھی شامل ہوتی ہیں، انہوں نے مطالبہ کیا کہ انکوائری کرکے حادثے کے ذمہ داران کو سزا دی جائے۔

انہوں نے ڈیم کو ’موت کا کنواں‘ قرار دیا جہاں حال ہی میں 7 خواتین اور 2 نوجوانوں سمیت سیکڑوں لوگ ڈوب کر جاں بحق ہوگئے تھے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں