چترال: کینیڈین شہری کا کشمیر مارخور کا شکار

اپ ڈیٹ 08 فروری 2023
شکاری کی جانب سے گولی 350 گز کے فاصلے سے چلائی گئی — تصویر ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ
شکاری کی جانب سے گولی 350 گز کے فاصلے سے چلائی گئی — تصویر ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ

چترال میں ایک کینیڈین شہری تھامس ریناٹو مارٹینی نے توشی شاشا کمیونٹی کے زیر انتظام گیم ریزرو میں کشمیر مارخور کا شکار کیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کینیڈین شہری گیم ریزرو میں کشمیر مارخور کا شکار کرنے کی تصدیق محکمہ جنگلی حیات چترال نے بتائی۔

شکار کیے گئے کشمیر مارخور کے بائیں سینگ کا سائز 43 انچ اور دائیں سنگ کا سائز ساڑھے 43انچ تھا، بائیں اور دائیں سینگوں کا قطر 12 انچ تھا کہ دونوں سینگوں کے درمیان بنیادی فاصلہ ڈیڑھ انچ تھا۔

شکاری کی جانب سے گولی 350 گز کے فاصلے سے چلائی گئی، شکار کیے گئے کشمیر مارخور کی عمر تقریباً 11 برس تھی۔

چترال میں محکمہ جنگلی حیات کی جانب سے جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے کمیونٹی کی شرکت کامیابی کی ایک کہانی ہے۔

واضح رہے کہ اگست 2022 میں محکمہ جنگلات و جنگلی حیات گلگت بلتستان نے ٹرافی ہنٹنگ پالیسی کے تحت جنگلی نایاب جانور استور مارخور کے شکار کا لائسنس ایک لاکھ 65 ہزار امریکی ڈالرکی تاریخی قیمت پر فروخت کیا تھا جو کہ پاکستانی کرنسی میں تقریباً 3 کروڑ 71 لاکھ 86 ہزار بنتے تھے۔

گزشتہ 2 سالوں میں استور مارخور کا لائسنس تاریخ کے مہنگے ترین دام پر فروخت کیا گیا، اس سے قبل استور مارخور کا لائسنس ایک لاکھ سے ایک لاکھ 20 ہزار امریکی ڈالر پر نیلام ہوتا رہا تھا، تاہم گزشتہ سال ڈالر کی قدر تیزی سے بڑھنے کا عوام کو غیر معمولی مالی فائدہ حاصل ہوا ہے۔

گلگت بلتستان میں استور مارخور کے شکار کے لیے ملکی کمپنیوں سے لائسنس امریکا، فرانس اور یورپی ممالک کے باشندے حاصل کرتے ہیں۔

ٹرافی ہنٹنگ پروگرام کے تحت ہر سال جنگلی جانوروں کے شکار کے لائسنسز کے لیے بولی کا اہتمام کیا جاتا ہے، ٹرافی ہنٹنگ پروگرام کے تحت زیادہ بولی دینے والی رجسٹرڈ آؤٹ فٹر کمپنیوں کو 3 اقسام کے جنگلی جانوروں استور مارخور، آئبیکس اور بلیو شیپ کے شکار کے لیے لائسنس جاری کیے جاتے ہیں۔

جنگلی جانوروں کے شکار کی مد میں حاصل ہونے والی آمدنی کا 85 فیصد حصہ شکار کے مقام سے ملحقہ کمیونٹی کو دیا جاتا ہے جبکہ 15 فیصد رقم قومی خزانے میں جمع کروائی جاتی ہے۔

سالانہ جنگلی جانوروں کے شکار کے لیے جاری سب سے مہنگا لائسنس استور مارخور کا فروخت کیا جاتا ہے۔

محققین کے مطابق مارخور گلگت بلتستان میں قیام پاکستان سے قبل سب سے پہلے استور میں دریافت ہوا تھا، اس لیے اس کا نام استور مارخور کے نام سے منسوب کیا گیا ہے، مارخور پاکستان کا قومی جانور بھی ہے۔

گلگت بلتستان کے پہاڑی اور بالائی علاقوں کے پسماندہ گاؤں میں کنزرویشن کمیٹی کے ذریعے سالانہ ٹرافی ہنٹنگ کی 85 فیصد رقم خرچ کی جاتی ہے جس سے مقامی لوگوں کو جانوروں کے تحفظ میں مدد اور غیر قانونی شکار کو روکنے کے تحت ہونے والے معاہدے کے تحت اس رقم کو صحت، تعلیم اور دیگر سماجی منصوبوں پر خرچ کیا جاتا ہے۔

محکمہ جنگی حیات کے ذرائع نے بتایا کہ ٹرافی ہنٹنگ کے کامیاب تجربے پر گلگت بلتستان میں جنگی جانوروں کے تحفظ کے لیے مزید کئی اہم اقدامات اٹھائے گئے ہیں، اب پالتو جانوروں کا بعض علاقوں میں انشورنس کرایا جاتا ہے جن کے نقصان پر معاوضے ادا کر دیے جاتے ہیں جس سے جنگلی حیات کو بچانے میں مدد مل رہی ہے ۔

ڈان اخبار کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ٹرافی ہنٹنگ سیزن نومبر میں شروع ہوتا ہے اور اپریل میں اختتام پذیر ہوجاتا ہے، غیر ملکی، قومی اور مقامی شکاری لائسنس حاصل کرنے کے بعد گلگت بلتستان کے محفوظ علاقوں میں شکار کرتے ہیں۔

ٹرافی ہنٹنگ پروگرام 80 کی دہائی میں شروع کیا گیا تھا جو جنگی حیات کی نایاب نسل کے عالمی کنونشن کے تحت ہوتا ہے اور گلگت بلتستان کے صرف مخصوص علاقوں میں ہی اس کی اجازت ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں