بلوچستان: لیویز فورس کی مختلف کارروائیوں میں خان محمد مری کے تمام اہلِ خانہ بازیاب

خان محمد مری کی اہلیہ گراں ناز، بیٹی اور چاروں بیٹوں کو لیویز ہیڈکواٹرز کوہلو منتقل کردیا—تصویر: لیویز فورس
خان محمد مری کی اہلیہ گراں ناز، بیٹی اور چاروں بیٹوں کو لیویز ہیڈکواٹرز کوہلو منتقل کردیا—تصویر: لیویز فورس

بلوچستان کے مختلف علاقوں میں کی گئی کارروائیوں میں لیویز اہلکاروں نے خان محمد مری کے مغوی تمام اہلِ خانہ کو بازیاب کرالیا جن میں ان کی اہلیہ، 3 بیٹے اور ایک بیٹی شامل ہے۔

اس حوالے سے رسالدار میجر کمانڈر کیو آر ایف لیویز شیر محمد مری نے بتایا کہ ایک مغوی بچے کو دکی جبکہ دو بچوں کو بارکھان اور ڈیرہ بگٹی کے سرحدی علاقے سے خفیہ اطلاع پر چھاپہ مار کر بازیاب کرایا گیا۔

باضابطہ بیان میں بتایا گیا کہ 120 جوانوں اور افسران پر مشتمل 4 ٹیموں نے بچوں کی بازیابی کے لیے کارروائیوں میں حصہ لیا۔

سیکیورٹی فورسز کی کارروائی وزیر داخلہ سیکریٹری داخلہ اور ڈی جی لیویز کی ہدایت کی روشنی میں کی گئی تھی جس میں ابتدائی چھاپے میں خان محمد کی اہلیہ اور بیٹی کو ایک بیٹے سمیت بازیاب کرایا گیا تھا۔

بیان میں بتایا گیا کہ لیویز کوئیک رسپانس فورس نے دکی کے علاقے نانا صاحب میں آپریشن کیا جس کے دوران خان محمد مری کا ایک اور بیٹا بازیاب کروایا گیا۔

جس کے بعد 12 سالہ عبدالستار اور 9 سالہ عبدالغفار کو علی الصبح کیے گئے آپریشن میں بازیاب کرایا گیا۔

بیان میں کہا گیا کہ سیکیورٹی فورسز کی کارروائی میں کسی مزاحمت کا سامنا نہیں ہوا کیونکہ ملزمان کو لیویز چھاپے کی پیشگی اطلاعات مل چکی تھی اور وہ فرار ہونے میں کامیاب رہے۔

بازیاب ہونیوالے تمام افراد کو کمشنر لورالائی کے حوالے کردیا گیا جنہیں آج کوئٹہ منتقل کردیا جائے گا۔’

قبل ازیں ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ذرائع نے بتایا گیا تھاکہ خان محمد مری کی اہلیہ گراں ناز، ان کی 17 سالہ بیٹی فرزانہ اور بیٹے عبدالستار کو دکی اور بارکھان کی سرحد کے قریب ایک علاقے سے بازیاب کرایا گیا تھا۔

ذرائع کے مطابق بعدازاں خاتون اور اس کے دو بچوں کو کمشنر ژوب کے حوالے کر دیا گیا، رسمی قانونی کارروائیوں کو مکمل کرنے کے بعد انہیں ان کے خاندان کے ساتھ ملایا جائے گا۔

لاش نوجوان لڑکی کی تھی، پولیس سرجن

دوسری جانب پولیس سرجن انکشاف کیا کہا کہ بارکھان میں ملنے والی خاتون کی لاش، جس کا چہرہ ناقابل شناخت تھا، خان محمد مری کی 40 سالہ بیوی کی نہیں بلکہ ایک نوجوان خاتون کی تھی، جس کی عمر 18 سال کے لگ بھگ تھی۔

دھرنے سے ہسپتال لائی گئی خاتون کی لاش کا پوسٹ مارٹم کرنے والی ڈاکٹر عائشہ فیض نے کہا کہ یہ 40 سے 45 سالہ خاتون کی نعش نہیں ہے۔

انہوں نے اپنی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں کہا کہ ’یہ لاش ایک 17 سے 18 سال کی لڑکی تھی، جس کا ریپ کیا گیا اور اس کے سر میں تین گولیاں ماری گئیں، اس کے علاوہ متاثرہ لڑکی کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا‘۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ لڑکی کی شناخت چھپانے کے لیے اس کے چہرے اور گردن پر تیزاب پھینکا گیا۔

قبل ازیں دن میں پولیس نے بلوچستان کے وزیر برائے مواصلات اور تعمیرات سردار عبدالرحمٰن کھیتران کو تین افراد کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔

بلوچستان کے انسپکٹر جنرل عبدالخالق شیخ نے تصدیق کی کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہاں، سردار عبدالرحمٰن کھیتران کو پولیس نے حراست میں لے لیا ہے اور اعلیٰ پولیس افسران کی خصوصی تفتیشی ٹیم نے وزیر سے پوچھ گچھ شروع کر دی ہے۔

پولیس نے منگل کی رات کوئٹہ اور بارکھان میں سردار عبدالرحمٰن کھیتران کی رہائش گاہوں پر چھاپے مارے تھے۔

آئی جی نے بتایا کہ خاتون اور 2 لڑکوں کے قتل کیس میں مزید گرفتاریاں متوقع ہیں۔

بلوچستان پولیس کے ترجمان نے بتایا کہ حاجی کوٹ کے علاقے میں چھاپے کے دوران سردار عبدالرحمٰن کھیتران کے بھتیجے کو بھی گرفتار کرلیا گیا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ سردار عبدالرحمٰن کھیتران کو تفتیش کے لیے کوئٹہ ڈی آئی جی آفس میں طلب کیا گیا اور ابتدائی پوچھ گچھ کے بعد متعلقہ حکام نے انہیں گرفتار کرنے کا فیصلہ کیا جس کے بعد انہیں حراست میں لے لیا گیا۔

ترجمان نے ڈان کو بتایا کہ سردار عبدالرحمٰن کھیتران کو عدالت میں پیش کیا جائے گا تاکہ ان کا ریمانڈ حاصل کیا جا سکے، وزیر کے خلاف بارکھان پولیس اسٹیشن میں قتل کی ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ واقعے کی شفاف تحقیقات کے لیے کیس کو کرائم برانچ کوئٹہ منتقل کر دیا گیا ہے۔

بارکھان قتل کی تحقیقات کے لیے بلوچستان کانسٹیبلری کے کمانڈنٹ سلمان چوہدری کی سربراہی میں ایک خصوصی ٹیم تشکیل دی گئی ہے۔

ٹیم کے دیگر ارکان میں کوئٹہ کے ڈی آئی جی ریٹائرڈ کیپٹن اظفر مہیسر، اسپیشل برانچ کے ڈی آئی جی اور کوئٹہ کے ایس ایس پی شامل ہیں۔

دریں اثنا بدھ کے روز مختلف قبائل کے ایک جرگے نے بارکھان قتل واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے حکومت کو احتجاج کرنے والے مری قبائل کے تمام مطالبات تسلیم کرنے کے لیے دو روز کی مہلت دی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں