پیمرا نے ججز سے متعلق بیانات نشر کرنے پر پابندی عائد کردی

اپ ڈیٹ 09 مارچ 2023
پیمرا نے کہا ہے کہ ایسا مواد نشر کرنا کوڈ آف کنڈکٹ کی دفعات، عدالتی اصولوں کی خلاف ورزی ہے — فائل فوٹو: ڈان نیوز
پیمرا نے کہا ہے کہ ایسا مواد نشر کرنا کوڈ آف کنڈکٹ کی دفعات، عدالتی اصولوں کی خلاف ورزی ہے — فائل فوٹو: ڈان نیوز

پاکستان الیکٹرونک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے موجودہ ججز سے متعلق بیانات نشر کرنے پر پابندی عائد کردی۔

پیمرا کی جانب سے جاری ہونے والے ہدایت نامے میں کہا گیا ہے کہ پیمرا کی جانب سے متعدد مرتبہ یہ ہدایت جاری کی گئی ہے کہ ججز سے متعلق براہ راست یا ریکارڈڈ مواد نشر کرنے سے گریز کیا جائے۔

ہدایت نامے کے مطابق متعدد یاد دہانیوں کے باوجود ٹی وی چینلز اعلیٰ عدلیہ کے ججز کے کنڈکٹ سے متعلق مواد نشر کر کے توہین آمیز مہم کا حصہ بن رہے ہیں۔

ہدایت نامے میں کہا گیا ہے کہ اگر کسی جگہ پر ججز کا کوئی کنڈکٹ زیر بحث آئے تو اسے نشر کرنا پیمرا ایکٹ کی متعدد دفعات کی سنگین خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے۔

اس میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی قسم کے مواد کو نشر کرنا جس میں بادی النظر میں ججز کے کنڈکٹ کا حوالہ دیا گیا ہو یا اعلیٰ عدلیہ کے خلاف بات کی گئی ہو، اتھارٹی کے قوانین اور عدالت عظمیٰ کے فیصلوں کی سراسر خلاف ورزی ہے۔

واضح رہے کہ پیمرا کا یہ حکم نامہ ایسے وقت میں جاری کیا گیا ہے جب 5 مارچ کو میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے بیانات اور تقاریر نشر کرنے پر پابندی عائد کردی تھی۔

پیمرا نے اپنے حکم نامے میں کہا تھاکہ سابق وزیراعظم اپنی تقاریر اور بیانات میں ریاستی اداروں پر مسلسل بے بنیاد الزامات عائد کر رہے ہیں اور اداروں اور اس کے افسران کے خلاف اپنے اشتعال انگیز بیانات سے منافرت پھیلا رہے ہیں جس سے امن عامہ کی صورتحال خراب ہونے کا اندیشہ ہے۔

پیمرا کی جانب سے تمام لائسنس یافتہ ٹی وی چینلز کو ہدایات جاری کی گئی تھیں کہ وہ عمران خان کی ریاستی اداروں کے خلاف ریکارڈ شدہ بیانات، لائیو گفتگو یا پریس کانفرنس نشر نہ کریں۔

پیمرا نے کہا کہ ریاستی اداروں اور افسران کے خلاف الزامات، نفرت انگیز بیانات، بہتان تراشی اور بلاجواز بیانات آئین پاکستان کے آرٹیکل 19 کی صریح خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ اس سلسلے میں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے فیصلوں کی بھی خلاف ورزی ہے۔

اتھارٹی نے خبردار کیا کہ ان احکامات کی خلاف ورزی کی صورت میں پمرا آرڈیننس کے سیکشن 30(3) کے تحت چینل کے لائسنس کو کسی شوکاز نوٹس کے بغیر ہی معطل کردیا جائے گا۔

یاد رہے کہ گزشتہ ماہ سرگودھا میں ورکرز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی چیف آرگنائرز مریم نواز نے اعلیٰ عدلیہ کے ججز پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’2014 میں جب عمران خان کا دھرنا ناکام ہوگیا اور پھر لاک ڈاؤن ناکام ہوا تو دوسرا طریقہ اپناتے ہوئے عدلیہ سے یہ جج اٹھائے، جو بھی کمپرومائزڈ اور کرپٹ جج تھا چاہے وہ کھوسہ ہو، ثاقب نثار ہو یا عظمت سعید ہو‘۔

مریم نواز نے کہا تھا کہ ’جب نواز شریف کو نااہل کیا جارہا تھا تو ایک جج بھی اس میں شامل تھا اور اس کو 5 برس گزر چکے ہیں مگر آج بھی اگر نواز شریف کے خلاف کوئی کیس آتا ہے تو وہ اس میں شامل ہوتا ہے‘۔

انہوں نے کہا تھا کہ ’جب اسٹیبلشمنٹ نے اپنے کندھوں سے عمران خان کو اتار کر پھینک دیا تو یہ ٹوکرا آج ان دو تین ججز نے اٹھا لیا ہے‘۔

مریم نواز کا کہنا تھا کہ ’آج جب عمران خان کا لانگ مارچ ناکام ہوا، اسمبلیوں سے باہر آنا پڑا، اس کو استعفے دینے پڑے اور اس کی ہر چیز ناکام ہوئی تو اس کو واپس لانے کا بیڑا ان دو ججز نے اٹھالیا ہے‘۔

انہوں نے کہا تھا کہ ’ آج جب عمران خان کی سیاسی موت نظر آرہی ہے تو اس کی سیاسی موت کو زندگی دینے کے لیے دو جج پھر میدان میں آگئے ہیں، یہ فیض کی باقیات ہیں جو آج بھی کہیں بیٹھ کر آپریٹ کر رہا ہے’۔

مریم نواز نے کہا تھا کہ ’چیف جسٹس صاحب، سرگودھا کے عوام کو پتا ہے کہ بینچ فکسنگ ہو رہی ہے، آپ کو کیوں نہیں پتا کہ بینچ فکسنگ ہورہی ہے‘۔

تبصرے (0) بند ہیں