لاہور ہائیکورٹ: توشہ خانہ کا 1990 سے 2001 تک کا ریکارڈ پیش کرنے کی ہدایت

اپ ڈیٹ 14 مارچ 2023
لاہور ہائی کورٹ میں جسٹس عاصم حفیظ نے 2 صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامہ جاری کیا—فائل فوٹو: لاہور ہائیکورٹ ویب سائٹ
لاہور ہائی کورٹ میں جسٹس عاصم حفیظ نے 2 صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامہ جاری کیا—فائل فوٹو: لاہور ہائیکورٹ ویب سائٹ

لاہور ہائی کورٹ نے قیام پاکستان سے اب تک توشہ خانہ کی تفصیلات پبلک کرنے کی درخواست پر تفصیلی فیصلہ جاری کردیا۔

قیام پاکستان سے اب تک توشہ خانہ کی تفصیلات پبلک کرنے کی درخواست پر لاہور ہائی کورٹ میں جسٹس عاصم حفیظ نے 2 صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامہ جاری کیا، یہ درخواست شہری منیر احمد نے ایڈووکیٹ اظہر صدیق کے توسط سے دسمبر 2022 میں دائر کی تھی۔

مذکورہ درخواست میں قیام پاکستان سے اب تک توشہ خانہ سے دیے گئے تحائف اور جن اشخاص کو تحفے دیے گئے ان کی تفصیلات مانگی گئی ہیں۔

جسٹس عاصم حفیظ نے تحریری حکم نامے میں کہا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے پیش ہو کر بتایا کہ 2002 سے اب تک کا ریکارڈ پبلک کردیا ہے، درخواست گزار کے مطابق پیش کیا گیا ریکارڈ نامکمل ہے، توقع نہیں ہے کہ کسی کو بھی مقدس گائے سمجھا جائے گا۔

حکم نامے میں ہدایت دی گئی کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل ریکارڈ پبلک کرنے کا مصدقہ ریکارڈ عدالت کے روبرو پیش کریں، وفاقی حکومت کے وکیل نے بتایا کہ حکومتی کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ تحفے دینے والے ذرائع کو خفیہ رکھنا ہے، سرکاری وکیل اس کمیٹی کے فیصلے کی متعلقہ دستاویزات عدالت میں پیش کریں، عدالت دیکھے گی کہ کیا تحفے دینے والے ذرائع کو خفیہ رکھنا ہے یا نہیں۔

تحریری حکم نامے میں کہا گیا کہ سیکشن افسر نے بتایا کہ 1990 سے 2001 کا ریکارڈ جزوی طور پر موجود ہے، سیکشن افسر کے مطابق اس ریکارڈ کی تصدیق نہیں کی جاسکتی، متعلقہ ریکارڈ کی جانچ اوپن کورٹ میں کی جائے گی، 21 مارچ کو ریکارڈ عدالت کے روبرو پیش کیا جائے۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز کیس کی سماعت کے دوران لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس عاصم حفیظ نے حکم دیا تھا کہ توشہ خانہ کا 2002 سے پہلے کا ریکارڈ جس شکل میں بھی موجود ہے پیش کیا جائے، عدالت مکمل جائزہ لینے کے بعد حکم جاری کرے گی۔

درخواست گزار کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ ایک وزیر تحفہ لے رہا ہو تو سمجھ آتی ہے مگر جن کے پاس سرکاری عہدہ ہے وہ تحفہ کیسے لے سکتے ہیں؟ اس پر عدالت نے کہا کہ ہمارے پاس یہ معاملہ نہیں ہے، اس کے لیے متعلقہ فورم موجود ہے۔

عدالت نے وفاقی حکومت کو 2002 سے پہلے کا ریکارڈ منگل ہی پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کردی تھی، وقفے کے بعد سماعت کو دوبارہ آغاز ہوا تو ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے توشہ خانہ کا 466 صفحات پر مشتمل 2002 سے 2023 تک کا ریکارڈ پبلک کرنے کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے عدالت کو آگاہ کیا کہ وفاقی حکومت نے توشہ خانہ کے تحائف سے متعلق پالیسی بنادی ہے۔

بعد ازاں عدالت نے وفاقی کابینہ کے توشہ خانہ سے متعلق اجلاس کے منٹس 21 مارچ کو طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔

واضح رہے کہ گزشتہ برس 19 دسمبر کو لاہور ہائی کورٹ نے وفاقی حکومت کو حکم دیا تھا کہ قیام پاکستان کے بعد سے سیاسی حکمرانوں اور بیوروکریٹس کو غیر ملکی شخصیات کی جانب سے ملنے والے توشہ خانہ کے تحائف کی تفصیلات جمع کرائی جائیں۔

گزشتہ ماہ 21 فروری کو کیس کی سماعت کے دوران وفاقی حکومت نے توشہ خانہ کا سیل شدہ ریکارڈ عدالت میں پیش کردیا تھا۔

دوران سماعت ڈپٹی اٹارنی جنرل اسد باجوہ نے مؤقف اپنایا تھا کہ یہ ریکارڈ کلاسیفائیڈ ہے، اگر عدالت چاہے تو اسے منظر عام پر لا سکتی ہے، توشہ خانہ کے ریکارڈ کو پبلک کر نے بارے میں آئندہ وفاقی کابینہ اجلاس میں فیصلہ ہونا ہے، اس موقع پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ سیل شدہ ریکارڈ کو ابھی نہیں کھول رہے۔

رواں ماہ 9 مارچ کو وزیر دفاع خوجہ آصف نے بتایا تھا کہ وفاقی کابینہ نے توشہ خانہ کا ریکارڈ پبلک کرنے کی اجازت دے دی ہے جس کے تحت یہ ریکارڈ کابینہ ڈویژن کی ویب سائٹ پر ڈال دیا جائے گا۔

بعد ازاں 2 روز قبل وفاقی حکومت نے سال 2002 سے 2022 کے دوران توشہ خانہ سے تحائف وصول کرنے والے سرکاری عہدوں کے حامل افراد کا ریکارڈ پبلک کردیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں