لاہور ہائی کورٹ نے عمران خان کی حفاظتی ضمانت میں 27 مارچ تک توسیع کردی

اپ ڈیٹ 24 مارچ 2023
عمران خان کے خلاف تھانہ  کھنہ اور رمنا کے دو، دو اور بارہ کوہ تھانے میں ایک مقدمہ ہے—فوٹو:ڈان نیوز
عمران خان کے خلاف تھانہ کھنہ اور رمنا کے دو، دو اور بارہ کوہ تھانے میں ایک مقدمہ ہے—فوٹو:ڈان نیوز
— فوٹو: اسکرین شاٹ / پی ٹی آئی ٹوئٹر
— فوٹو: اسکرین شاٹ / پی ٹی آئی ٹوئٹر
وکیل گوہر علی نے عدالت سے کہا کہ 30 مارچ کو عمران خان توشہ خانہ کیس میں کچہری آرہے ہیں — فائل فوٹو: پی ٹی آئی ٹوئٹر
وکیل گوہر علی نے عدالت سے کہا کہ 30 مارچ کو عمران خان توشہ خانہ کیس میں کچہری آرہے ہیں — فائل فوٹو: پی ٹی آئی ٹوئٹر

لاہور ہائی کورٹ نے سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی پانچ مقدمات میں حفاظتی ضمانت میں 27 مارچ تک توسیع کردی۔

عمران خان کی اسلام آباد میں درج 5 مقدمات میں حفاظتی ضمانت پر سماعت شروع ہوئی تو عمران خان کمرہ عدالت میں موجود تھے، جسٹس طارق سلیم شیخ کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے بطور اعتراض کیسز پر سماعت کی۔

عمران خان نے اسلام آباد میں درج 5 مقدمات میں حفاظتی ضمانت کے لیے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا، جس پر رجسٹرار آفس نے اعتراض لگایا تھا کہ پی ٹی آئی چیئرمین ان 5 مقدمات میں پہلے ہی حفاظتی ضمانت لے چکے ہیں۔

عمران خان کے خلاف تھانہ کھنہ اور رمنا میں دو، دو اور بارہ کوہ تھانے میں ایک مقدمہ ہے۔

عدالت میں سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے دلائل دیے کہ عمران خان کی درخواستوں پر اعتراض عائد کیا گیا ہے کہ درخواستیں دوبارہ دائر کی گئی ہیں، عمران خان انہی کیسز میں ضمانت لینے اسلام آباد گئے تھے، وہ 40 منٹ جوڈیشل کمپلیکس کے باہر کھڑے رہے۔

وکیل عمران خان نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان نے ضمانت کا غلط استعمال نہیں کیا، اسلام آباد میں عمران خان پر دو نئے مقدمات درج کر دیے گئے۔

بیرسٹر سلمان صفدر نے مؤقف اپنایا کہ جو حالات ہیں جوڈیشل کمپلیکس اسلام آباد فی الحال نہیں جا سکتے۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان سابق وزیر اعظم ہیں، انہیں سیکیورٹی تھریٹس ہیں، عمران خان کے پاس کوئی سیکیورٹی نہیں ہے، اس موقع پر سماعت کے دوران عمران خان روسٹرم پر آگئے۔

بیرسٹر سلمان صفدر نے مزید کہا کہ ہم نے پہلے سے لی گئی ضمانت میں توسیع مانگی ہے جس پر جسٹس طارق سلیم شیخ نے ریمارکس دیے کہ میرے مطابق ایسا کوئی قانون موجود نہیں ہے۔

بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ عمران خان کا کنڈکٹ سامنے ہے، ان پر کیسز ہوتے جاتے جارہے ہیں اور ہم سامنا کرتے جارہے ہیں جس پر جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ آپ کو اسلام آباد کی ہائی کورٹ سے رجوع کرنا چاہیے تھا۔

وکیل عمران خان نے کہا کہ ہم کل سے اس پر غور کر رہے ہیں لیکن عمران خان کی سیکیورٹی کا ایشو ہے، عمران خان آج بھی اپنی سیکیورٹی کے ساتھ عدالت آئے ہیں۔

عمران خان نے عدالت کو بتایا کہ مجھے اسلام آباد ٹول پلازہ سے عدالت پہنچنے میں کافی وقت لگا، اتنی پولیس اور ایف سی لگا دی تھی کہ پتا نہیں کوئی مجرم آرہا ہے، پتھراؤ کیا جارہا تھا، شیل برسائے جا رہے تھے میری جان خطرے میں تھی۔

انہوں نے کہا کہ میری زندگی خطرے میں تھی پھر ہم واپس آگئے، اگر آپ ویڈیو دیکھیں تو میں 40 منٹ جوڈیشل کمپلیکس کے باہر کھڑا تھا، جو میرے ساتھ ہو رہا ہے یہ غیر معمولی صورتحال ہے، میرے اوپر 40 دہشت گردی کے کیسز ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ عدالت کے سامنے کچھ گزارشات رکھنا چاہتا ہوں، میں موٹروے ٹول پلازہ پر پہنچا تو سب کچھ بند کردیا گیا، میری زندگی خطرے میں ڈال دی گئی ہے۔

سابق وزیر اعظم نے عدالت کو بتایا کہ حکومت کہہ رہی ہے کہ میری جان خطرے میں ہے، میں جان بچا کر وہاں سے نکلا، میں وہاں سے نکلا تو دہشت گردی کے مقدمات درج کر دیے گئے، میں آج خفیہ طور پر عدالت میں آیا ہوں۔

وکیل عمران خان نے کہا کہ عمران خان کی درخواست پر اعتراض ختم ہو چکا ہے، عمران خان نے پیر کے روز اسلام آباد میں عدالت میں پیش ہونا ہے، ابھی غیر معمولی سی صورتحال ہے۔

عدالت نے استفسار کیا کہ لاہور ہائی کورٹ نے پہلے کس تاریخ کو حفاظتی ضمانت منظور کی تھی، بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ 17 مارچ کو عدالت نے حفاظتی ضمانت منظور کی تھی، 18 کو عمران خان اسلام آباد گئے اور انسداد دہشت گردی عدالت میں درخواست دائر کی، عمران خان کو انسداد دہشت گردی عدالت پہنچنے نہیں دیا گیا۔

عدالت نے سرکاری وکیل سے استفسار کیا کہ کیا سرکاری وکیل اس بارے میں تصدیق کرتے ہیں کہ عمران خان کی ضمانت کی درخواستیں دائر ہوئیں، سرکاری وکیل نے جواب دیا کہ ہمارے علم میں نہیں کہ درخواستیں دائر ہوئیں کہ نہیں۔

وکیل عمران خان نے کہا کہ ہم تو خود سسٹم کے اندر آرہے ہیں، سرکاری وکلا کو مخالفت نہیں کرنی چاہیے، میں نے آج سے پہلے کچھ حفاظتی ضمانت میں توسیع فائل نہیں کی، 19 کو اتوار کی چھٹی تھی، میڈیکل ایشوز کی وجہ سے عمران خان لاہور میں قیام پذیر ہیں۔

بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ 21 مارچ کو لاہور ہائی کورٹ سے دیگر کیسز میں حفاظتی ضمانت لی گئی، عمران خان پر 100 سے زائد کیسز ہیں، اس دوران عمران خان نے کہا کہ 100 نہیں 140 کیسز ہیں۔

وکیل عمران خان نے کہا کہ 22 مارچ کو ہمارا کوئی کیس نہیں تھا، 23 مارچ کی چھٹی تھی، عمران خان عدالت سے آئینی ریلیف مانگ رہے ہیں، 27 کو عمران خان نے دیگر کیسز میں اسلام آباد پیش ہونا ہے، یہ عدالت 27 مارچ تک حفاظتی ضمانت منظور کرے، بدنیتی کا عنصر عمران خان کی طرف سے نہیں پولیس کی طرف سے ہے۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان کے خلاف تمام کیسز سیاسی نوعیت کے ہیں، عمران خان پر حملہ ہو چکا ہے، اب بھی جان خطرے میں ہے، اسلام آباد میں ایک ہی دن کیسز میں پیشی سے بہت سے مسائل نہیں ہوں گے۔

وکیل عمران خان انتظار پنجوتھا نے کہا کہ ہم نے پانچ بیان حلفی جمع کروائے ہیں، عدالت نے وکیل کو بیان حلفی پڑھ کر سنانے کی ہدایت کی جس پر وکیل نے بیان حلفی پڑھ کر سنایا، جسٹس طارق سلیم شیخ نے عمران خان کو بھی بیان حلف پڑھنے کی ہدایت کی جس پر عمران خان نے بھی جمع کرایا گیا بیان حلفی پڑھا۔

عدالت نے استفسار کیا کہ کیا سرکاری وکلا نے کچھ کہنا ہے، جس پر سرکاری وکیل نے جواب دیا کہ ہم نے کچھ نہیں کہنا، عدالت نے عمران خان کے وکلا سے مکالمہ کیا کہ اگر اسلام آباد کی عدالت میں درخواستیں زیر التوا نہ ہوئیں تو نتائج بھگتنا ہوں گے۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ ہم آپ کو پھر وارننگ دے رہے ہیں کہ کوئی غلط بیانی ہوئی تو اس کے بہت سنجیدہ نتائج ہوں گے، آپ کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی بھی شروع ہوسکتی ہے۔

اس کے ساتھ ہی لاہور ہائی کورٹ نے عمران خان کی پانچ مقدمات میں حفاظتی ضمانت میں 27 مارچ تک توسیع کر دی۔

قبل ازیں لاہور ہائی کورٹ پہنچنے پر صحافی نے عمران خان سے سوال کیا کہ آپ سمجھتے ہیں کہ سپریم کورٹ الیکشن کمیشن کے فیصلے کو اڑا دے گی؟ جس پر انہوں نے جواب دیا کہ اگر نہیں اڑائے گی تو سوال یہ ہے کہ انتخابات اکتوبر میں کیسے ہوں گے، ایسے تو یہ کبھی کہہ دیں گے کہ پیسے نہیں ہیں، جنگل کا قانون بنا ہوا ہے۔

عمران خان نے وکلا سے درخواست کی کہ کمرہ عدالت میں تصاویر نہ بنائیں۔

جج دھمکی کیس: عمران خان کے وارنٹ گرفتاری، قابل ضمانت وارنٹ میں تبدیل

قبل ازیں، اسلام آباد کی مقامی عدالت نے خاتون جج دھمکی کیس میں عمران خان کی قانونی ٹیم کی وارنٹ معطلی کو 30 مارچ تک توسیع دینے کی استدعا پر ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری کو قابل ضمانت وارنٹ میں تبدیل کردیا۔

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس میں ایڈیشنل سیشن جج فیضان حیدر گیلانی نے کیس کی سماعت کی جس میں پراسیکیوٹر راجا رضوان عباسی اور عمران خان کے وکیل گوہر علی پیش ہوئے۔

پراسیکیوٹر نے عدالت سے استدعا کی کہ عمران خان کو آئندہ تاریخ پر پیش ہونے کے لیے پابند کیا جائے۔

عمران خان کے وکیل نے اپنے مؤکل کے وارنٹ معطلی میں 30 مارچ تک توسیع کرنے کی استدعا کردی اور کہا کہ توشہ خانہ کیس میں بھی اسی روز تک وارنٹ معطل ہیں۔

وکیل گوہر علی نے عدالت سے کہا کہ 30 مارچ کو عمران خان توشہ خانہ کیس میں کچہری آرہے ہیں، آپ بھی اسی دن کی تاریخ دے دیں۔

انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ آپ وارنٹ معطلی جاری رکھیں، میں سول کورٹ میں جا کر وارنٹ گرفتاری کی تاریخ 29 سے 30 مارچ کرنے کی درخواست کردیتا ہوں۔

جج نے کہا کہ آپ عجیب بات کر رہے ہیں، 30 مارچ کی استدعا کر رہے جبکہ وارنٹ گرفتاری کا حکم 29 مارچ تک کا ہے۔

پراسیکیوٹر نے کہا کہ یہ تو مطلب ہوا کہ عدالت وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کی جرأت بھی نہ کرے۔

پراسیکیوٹر کا مزید کہنا تھا کہ وارنٹ معطلی کی درخواست پر میرٹ پر دلائل دینے چاہیے، ملزم عدالت کا پسندیدہ بچہ ہوتا ہے لیکن اتنا بھی نہیں ہوتا۔

جج نے کہا کہ 29 مارچ کو عدالت کوئی بھی فیصلہ جاری کرسکتی ہے۔

جج نے استفسار کیا کہ کیا عمران خان خاتون جج دھمکی کیس میں کبھی پیش ہوئے ؟ جس پر پراسیکیوٹر نے بتایا کہ عمران خان اس کیس میں کبھی پیش نہیں ہوئے، ابھی انہیں کیس کی نقول بھی دینی ہیں۔

پراسیکیوٹر نے اعتراض اٹھایا کہ وکیل گوہر علی کا تو خاتون جج کیس میں وکالت نامہ ہی نہیں ہے۔

بعد ازاں عدالت نے عمران خان کی قانونی ٹیم کی استدعا پر فیصلہ محفوظ کرلیا جسے سناتے ہوئے ناقابل ضمانت وارنٹ کو قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری میں تبدیل کردیا۔

عمران خان کے خلاف مقدمہ

پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے 20 اگست کو اسلام آباد میں ریلی سے خطاب میں اسلام آباد پولیس کے آئی جی اور ڈی آئی جی کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہم تم کو چھوڑیں گے نہیں‘۔

اس کے بعد انہوں نے عدلیہ کو اپنی جماعت کی طرف متعصب رویہ رکھنے پر بھی خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اب وہ بھی نتائج کے لیے تیار ہو جائیں۔

عمران خان نے ایڈیشنل اور سیشن جج زیبا چوہدری کو بھی خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کو بھی سنگین نتائج کا سامنا کرنا ہوگا، واضح رہے کہ خاتون جج نے دارالحکومت پولیس کی درخواست پر پاکستان تحریک انصاف کے رہنما ڈاکٹر شہباز گِل کا دو روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کیا تھا۔

اس کے بعد سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف اسلام آباد کے علاقے صدر کے مجسٹریٹ علی جاوید کی مدعیت میں تھانہ مارگلہ میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ 20 اگست کو پاکستان تحریک انصاف رہنما شہباز گِل کی گرفتاری کے خلاف عمران خان کی قیادت میں ریلی نکالی گئی جس کا راستہ زیرو پوائنٹ سے ایف 9 پارک تک تھا، اس دوران عمران خان کی تقریر شروع ہوئی جس میں انہوں نے اسلام آباد پولیس کے اعلیٰ ترین افسران اور ایک معزز خاتون ایڈیشنل جج صاحبہ کو ڈرانا اور دھمکانا شروع کیا۔

تھانہ مارگلہ میں 20 اگست کو درج مقدمے میں عمران خان کے خلاف دفعات 504/506 اور 188/189 لگائی گئی تھیں۔

ایف آئی آر میں مزید کہا گیا تھا کہ عمران خان کی اس تقریر کا مقصد پولیس کے اعلیٰ افسران اور عدلیہ کو خوف زدہ کرنا تھا تاکہ وہ اپنے فرائض کی ادائیگی نہ کریں اور ضرورت پڑنے پر تحریک انصاف کے کسی رہنما کے خلاف کارروائی کرنے سے بھی گریز کریں۔

ایف آئی آر میں مزید کہا گیا تھا کہ عمران خان کی اس انداز میں کی گئی تقریر سے پولیس حکام، عدلیہ اور عوام الناس میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے اور عوام الناس میں بے چینی، بدامنی اور دہشت پھیلی اور ملک کا امن تباہ ہوا ہے۔

ایف آئی آر میں استدعا کی گئی تھی کہ عمران خان کے خلاف قانونی کارروائی کرکے ان کو مثالی سزا دی جائے۔

زمان پارک ممکنہ آپریشن کے خلاف عمران خان کی درخواست: پنجاب حکومت سمیت دیگر کو نوٹس جاری

زمان پارک ممکنہ آپریشن کے خلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت ہوئی، وکیل عمران خان اظہر صدیق نے کہا کہ پولیس ہر روز زمان پارک پر آپریشن کر رہی ہے۔

عمران خان نے کہا کہ میں کچھ کہنا چاہتا ہوں، میں آپکو فیکٹس بتانا چاہتا ہوں، عدالت نے حکم دیا تھا کہ زمان پارک پر آپریشن نہیں ہو گا، میں اسلام آباد چلا گیا میری بیوی اکیلی تھی۔

عمران خان نے کہا کہ میں نے اپنی بیوی کو کبھی اکیلے نہیں چھوڑنا تھا لیکن مجھے اسلام آباد جانا تھا، انہوں نے وہاں چوری کی ملازمین کو مارا گیا، میری بیوی باہر سے انے والے شور سے پریشان ہو گی، یہاں تو لگتا ہے جنگل کا قانون ہے، مجھے انفارمیشن ملی اور انفارمیشن بھی پولیس سے ملی کہ آپریشن کرنے لگے ہیں۔

عمران خان نے کہا کہ میں پھر 2 دن پہلے ٹی وی پر گیا اور ساری بات بتائی، چھوڑیں کہ میں سابق وزیر اعظم ہوں ، لیکن یہاں بنیادی حقوق کی بھی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔

لاہور ہائی کورٹ نے متفرق درخواست پر پنجاب حکومت سمیت دیگر کو نوٹس جاری کر دیے۔

تبصرے (0) بند ہیں