اسٹیٹ بینک نے درآمدات پر ’کیش مارجن‘ کی تمام شرائط واپس لے لیں

کیش مارجن وہ رقم ہوتی ہے جو درآمد کنندہ کو درآمدی لین دین شروع کرنے کے لیے اپنے بینک میں جمع کرانا ہوتی ہے—فائل فوٹو : رائٹرز
کیش مارجن وہ رقم ہوتی ہے جو درآمد کنندہ کو درآمدی لین دین شروع کرنے کے لیے اپنے بینک میں جمع کرانا ہوتی ہے—فائل فوٹو : رائٹرز

اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ اسٹاف لیول معاہدے تک پہنچنے کے لیے ایک اور شرط پوری کرتے ہوئے 2017 سے 2022 تک جاری کیے گئے 6 سرکلرز کے تحت درآمدات پر عائد کیش مارجن کی تمام شرائط کو ختم کر دیا۔

24 مارچ کو بینکنگ پالیسی اینڈ ریگولیشن ڈیپارٹمنٹ کے سرکلر میں، اسٹیٹ بینک نے کہا کہ وہ 31 مارچ سے درآمدی آئٹمز پر عائد موجودہ کیش مارجن ریکوائرمنٹ واپس لے رہا ہے۔

اسٹیٹ بینک کی جانب سے یہ اعلان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب کہ 17 مارچ کوختم ہونے والے ہفتے میں اسٹیٹ بینک کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر کا حجم 4 ارب 598 کروڑ ڈالر اور کمرشل بینکوں کے پاس 5 ارب 540 کروڑ ڈالر ریکارڈ کیا گیا۔

اسٹیٹ بینک کی جانب سے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق 17 مارچ کوختم ہونے والے ہفتہ میں اسٹیٹ بینک کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر کا حجم 4 ارب 598 کروڑ ڈالر اور کمرشل بینکوں کے پاس 5 ارب 540 کروڑ ڈالر ریکارڈ کیا گیا۔

نقدی کی کمی کا شکار پاکستان 2019 میں شروع ہونے والے 7 ارب ڈالر کے قرض پروگرام کے نویں جائزے کی تکمیل کے لیے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے تک پہنچنے کے لیے سخت اقدامات کر رہا ہے۔

حکومت ٹیکسوں کے ذریعے ریونیو بڑھانے کے لیے بھی سخت اقدامات کر رہی ہے اور اس نے عالمی مالیاتی فنڈ کے ساتھ ایک ارب ڈالر سے زیادہ کی فنڈنگ حاصل کرنے کے لیے معاہدے کے تحت روپے کی قدر میں کمی کی اجازت دی ہے۔

قرض دہندہ کے ساتھ اہم معاہدہ جو کہ پالیسی فریم ورک کے باعث گزشتہ سال کے آخر سے تاخیر کا شکار ہے، یہ معاہدہ نہ صرف ایک ارب 20 کروڑ ڈالر کی تقسیم کا باعث بنے گا بلکہ دوست ممالک سے ڈالر انفلو کی راہ بھی کھول دے گا۔

کیش مارجن وہ رقم ہوتی ہے جو درآمد کنندہ کو درآمدی لین دین شروع کرنے کے لیے اپنے بینک میں جمع کرانا ہوتی ہے جیسے لیٹر آف کریڈٹ کھولنا جب کہ یہ کیش مارجن درآمدی سامان کی مجموعی قیمت تک ہو سکتا ہے۔

کیش مارجن درآمدات کی حوصلہ شکنی کرنے کے ایک اقدام کے طور پر دیکھا جاتا ہے جب کہ بینک میں پہلے سے جمع کی جانے والی رقم درآمد کنندگان کے لیے مواقع کی لاگت کو بڑھا دیتی ہے۔

اپنے تازہ ترین سرکلر میں اسٹیٹ بینک پاکستان نے کہا کہ وہ اپنے ماضی کے تمام سرکلرز جو 2017، 2018، 2021 اور 2022 میں جاری کیے گئے تھے، انہیں 31 مارچ سے واپس لے رہا ہے۔

واضح رہے کہ 2017 میں اسٹیٹ بینک نے 404 آئٹمز پر 100 فیصد کیش مارجن عائد کیا تھا جب کہ 2018 میں بھی مرکزی بینک نے 131 آئٹمز پر اسے لاگو کیا تھا۔

پھر 2021 میں، اسٹیٹ بینک پاکستان نے 100 فیصد کیش مارجن کے ساتھ اشیا کی کل تعداد 525 تک بڑھا دی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں