آپ کا خط تحریک انصاف کی پریس ریلیز دکھائی دیتا ہے، وزیراعظم کا صدر کو جواب

اپ ڈیٹ 26 مارچ 2023
شہباز شریف نے صدر عارف علوی کو 5 صفحات اور 7 نکات پر مشتمل جوابی خط لکھ دیا — فائل/فوٹو: اے پی/ڈان نیوز
شہباز شریف نے صدر عارف علوی کو 5 صفحات اور 7 نکات پر مشتمل جوابی خط لکھ دیا — فائل/فوٹو: اے پی/ڈان نیوز

وزیرِ اعظم شہباز شریف نے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے خط کو یکطرفہ اور حکومت مخالف قرار دیتے ہوئے جوابی خط میں کہا ہے کہ یہ کہنے پر مجبور ہوں آپ کا خط تحریک انصاف کا پریس ریلیز دکھائی دیتا ہے۔

صدر مملکت نے وزیراعظم شہبازشریف کو 24 مارچ کو خط لکھا تھا جس میں انہوں نے وزیر اعظم کو کہا تھا کہ وہ توہین عدالت سے بچنے کے لیے متعلقہ حکام کو پنجاب اور خیبرپختونخوا میں مقررہ وقت میں عام انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن کی معاونت کی ہدایت کریں۔

یہ خط ایک ایسے موقع پر تحریری کیا گیا تھا جب اس سے 2 روز قبل ہی الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 30 اپریل بروز اتوار کو پنجاب میں ہونے والے صوبائی اسمبلی کے عام انتخابات 8 اکتوبر تک ملتوی کرنے کا اعلان کردیا تھا۔

اب اس خط کے جواب میں شہباز شریف نے صدر عارف علوی کو 5 صفحات اور 7 نکات پر مشتمل جوابی خط لکھ دیا ہے۔

وزیرِ اعظم نے خط میں لکھا کہ ’کہنے پر مجبور ہوں کہ آپ کا خط تحریک انصاف کا پریس ریلیز دکھائی دیتا ہے، خط یکطرفہ اور حکومت مخالف خیالات کا حامل ہے جن کا آپ کھلم کھلا اظہار کرتے ہیں، آپ کا خط صدر کے آئینی منصب کا آئینہ دار نہیں، آپ مسلسل یہی کر رہے ہیں‘۔

شہباز شریف نے لکھا کہ ’3 اپریل 2022 کو آپ نے قومی اسمبلی تحلیل کرکے سابق وزیراعظم کی غیر آئینی ہدایت پر عمل کیا، قومی اسمبلی کی تحلیل کے آپ کے حکم کو سپریم کورٹ نے 7 اپریل کو غیرآئینی قرار دیا، آرٹیکل 91 کی شق 5 کے تحت بطور وزیر اعظم میرے حلف کے معاملے میں بھی آپ آئینی فرض نبھانے میں ناکام ہوئے‘۔

انہوں نے لکھا کہ ’کئی مواقع پر آپ منتخب آئینی حکومت کے خلاف فعال انداز میں کام کرتے آرہے ہیں، میں نے آپ کے ساتھ اچھا ورکنگ ریلیشن شپ قائم کرنے کی پوری کوشش کی، اپنے خط میں آپ نے جو لب ولہجہ استعمال کیا، اُس سے آپ کو جواب دینے پر مجبور ہوا ہوں‘۔

وزیراعظم نے کہا کہ ’انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا جو حوالہ آپ نے دیا ہے وہ ایک مخصوص جماعت کے سیاستدانوں اور کارکنوں کے حوالے سے ہے، آئین کے آرٹیکل 10 اے اور 4 کے تحت آئین اور قانون کا مطلوبہ تحفظ ان تمام افراد کو دیا گیا ہے‘۔

انہوں نے لکھا کہ ’قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ریاستی عمل داری کے لیے قانون اور امن عامہ کے نفاذ کے مطلوبہ ضابطوں پر سختی سے عمل کیا ہے، تمام افراد نے قانون کے مطابق دادرسی کے مطلوبہ فورمز سے رجوع کیا ہے‘۔

شہباز شریف نے لکھا کہ ’جماعتی وابستگی کے سبب آپ نے قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملوں کو یکسر فراموش کردیا، آپ نے نجی و سرکاری املاک کی توڑ پھوڑ، افراتفری پیدا کرنے کی کوششوں کو نظر انداز کردیا، پی ٹی آئی کی ملک کو معاشی ڈیفالٹ کے کنارے لانے کی کوششوں کو آپ نے نظر انداز کردیا‘۔

انہوں نے کہا کہ ’پی ٹی آئی کی وجہ سے آئین، انسانی حقوق اور جمہوریت کے مستقبل سے متعلق پاکستان کی عالمی ساکھ خراب ہوئی، آپ نے بطور صدر ایک بار بھی عمران خان کی عدالتی حکم عدولی اور تعمیل کرانے والوں پر حملوں کی مذمت نہیں کی، عدالت کے حکم کے خلاف کسی سیاسی جماعت کی طرف سے ایسی عسکریت پسندی پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی‘۔

شہباز شریف نے جوابی خط میں لکھا کہ ’ہماری حکومت آئین کے آرٹیکل 19 کے مطابق آزادی اظہار پر مکمل یقین رکھتی ہے، یہ آزادی آئین اور قانون کی حدود قیود میں استعمال کرنے کی اجازت ہے، جب پی ٹی آئی اقتدار میں تھی تو آپ نے کبھی اس بارے میں آواز بلند نہیں کی‘۔

انہوں نے صدر مملکت کی توجہ ہیومن رائٹس واچ کی سالانہ ورلڈ رپورٹ 2022 کی جانب مبذول کرواتے ہوئے لکھا کہ ’پی ٹی آئی اس وقت اقتدار میں تھی، اس رپورٹ میں لکھا ہے کہ حکومت پاکستان میڈیا کو کنٹرول کرنے کی کوششیں تیز کرچکی ہے، رپورٹ میں لکھا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت اختلاف رائے کو کچل رہی ہے، رپورٹ میں صحافیوں، سول سوسائٹی اور سیاسی مخالفین کو ہراساں کرنے، قیدوبند اور نشانہ بنانے کی تمام تفصیل درج ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’پی ٹی آئی حکومت کے دور میں انسانی حقوق کا قومی کمیشن معطل رہا، قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کی رپورٹ پی ٹی آئی حکومت پر فرد جرم ہے، انسانی حقوق کے عالمی اداروں کی متعدد رپورٹس میں پی ٹی آئی حکومت کی خلاف ورزیوں کا ریکارڈ موجود ہے‘۔

وزیراعظم نے یاددہانی کروائی کہ ’پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں رکن قومی اسمبلی رانا ثنااللہ پر منشیات کا جھوٹا مقدمہ بنایا گیا جس کی سزا موت ہے، پی ٹی آئی حکومت نے مرد و خواتین ارکان پارلیمان کو قیدوبند اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا نشانہ بنایا، ایک سابق وزیراعظم کے خاندان کی خاتون رکن کو بھی معاف نہ کیا گیا، سیاسی مخالفین کا صفایا کرنے کے لیے نیب کو استعمال کیا گیا‘۔

انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ ’بطور صدر پاکستان آپ نے ایک بار بھی ان میں سے کسی بھی واقعے پر آواز بلند نہ کی، آپ بطور صدر انسانی حقوق، آئین اور قانون کی ان خلاف ورزیوں پر اُس وقت کی حکومت سے پوچھ سکتے تھے‘۔

شہباز شریف نے مزید لکھا کہ ’آپ کے خط کا جواب اسی لیے دے رہا ہوں تاکہ آپ کے یکطرفہ رویے کو ریکارڈ پر منکشف کردوں، پی ٹی آئی کی طرف سے آپ نے عام، پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کے انتخاب کی تاریخ دی، آپ کا یہ فیصلہ سپریم کورٹ نے یکم مارچ 2023 کے حکم سے مسترد کردیا، آپ نے 2 صوبوں میں بدنیتی پر مبنی اسمبلیوں کی تحلیل پر کسی قسم کی تشویش تک ظاہر نہ کی، یہ سب آپ نے چیئرمین پی ٹی آئی کی انا اور تکبر کی تسکین کے لیے کیا‘۔

انہوں نے لکھا کہ ’صوبائی اسمبلیاں کسی آئینی و قانونی مقصد کے لیے نہیں، صرف وفاقی حکومت کو بلیک میل کرنے کے لیے تحلیل کی گئیں، آپ نے یہ بھی نہ سوچا کہ 2 صوبائی اسمبلیوں کے پہلے الیکشن کرانے سے ملک نئے آئینی بحران میں گرفتار ہوجائے گا‘۔

وزیراعظم نے لکھا کہ ’آپ نے آرٹیکل 218 کی شق 3 کے تحت شفاف، آزادانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کے تقاضے کو بھی فراموش کردیا، آئین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کو آپ نے مکمل طور پر نظر انداز کردیا جو نہایت افسوسناک ہے، آپ کا یہ طرز عمل صدر کے آئینی کردار کے مطابق نہیں‘۔

الیکشن کی تاریخ کے حوالے سے وزیراعظم نے اپنے جوابی خط میں لکھا کہ ’الیکشن کمیشن نے 8 اکتوبر 2023 کو پنجاب میں انتخابات کرانے کی تاریخ دی ہے، تمام وفاقی اور صوبائی اداروں نے متعلقہ اطلاعات الیکشن کمیشن کو مہیا کی ہیں، الیکشن کرانے کی ذمہ داری آئین نے الیکشن کمیشن کو سونپی ہے، الیکشن کمیشن کو طے کرنا ہے کہ شفاف و آزادانہ انتخاب کرانے کے لیے آرٹیکل 218 (3) کے تحت سازگار ماحول موجود ہے‘۔

وزیراعظم نے مزید کہا کہ ’صدر نے اپنے خط میں سابق حکومت کے وفاقی وزرا کے جارحانہ رویے اور انداز بیان پر کوئی اعتراض نہیں کیا، سابق حکومت کے وزرا مسلسل الیکشن کمیشن کے اختیار اور ساکھ پر حملے کر رہے ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ ’صدر کی آئین کے آرٹیکل 46 اور رولز آف بزنس کی شق 15 (5) (بی) کی تشریح درست نہیں، آپ نے صدر اور وزیراعظم کے درمیان مشاورت کی بات درست نہیں کی، آئین کے آرٹیکل 48 (ایک) کے تحت صدر کابینہ یا وزیراعظم کی ایڈوائس کے مطابق کام کرنے کا پابند ہے، اِس کا اطلاق صدر کو مطلع رکھنے کی حد تک ہے، نہ زیادہ نہ اس سے کم، وفاقی حکومت کے انتظامی اختیار کو استعمال کرنے میں وزیراعظم صدر سے مشاورت کا پابند نہیں‘۔

خط کے اختتام پر وزیراعظم نے لکھا کہ ’جناب صدر! میں اور وفاقی حکومت آئین کے تحت اپنی ذمہ داریوں سے پوری طرح آگاہ ہیں، آئین کی مکمل پاسداری، پاسبانی اور دفاع کے عہد پر کاربند ہیں، آئین میں درج ہر شہری کے بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ پر کاربند ہیں‘۔

انہوں نے لکھا کہ ’حکومت پرعزم ہے کہ کسی کو بھی قانون ہاتھ میں لینے، ریاست پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کی اجازت نہ دی جائے، آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آئینی طورپر منتخب حکومت کو کمزور کرنے کی ہر کوشش ناکام بنائیں گے‘۔

صدر کے نئے الیکشن میں جانے کے اقدام پر عمل ہوتا تو ہم مستحکم جمہوریت ہوتے، فواد چوہدری

وزیراعظم کے جوابی خط پر ردِ عمل دیتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری نے کہا کہ ’اگر صدر کے اسمبلی توڑنے اور نئے الیکشن میں جانے کے اقدام پر عمل ہوتا تو آج ملک اس آئینی، سیاسی اور معاشی گرداب میں نہ ہوتا اور ہم مستحکم جمہوریت ہوتے‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’صدر مملکت نے اپنے خط میں شہباز شریف کو آئین پر عمل کرنے کا مشورہ دیا ہے، ظاہر ہے یہ بات ان کو تحریک انصاف کی پریس ریلیز ہی نظر آئے گی‘۔

پس منظر

واضح رہے کہ 24 مارچ کو صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے وزیر اعظم شہباز شریف کو بذریعہ خط کہا تھا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے تمام متعلقہ انتظامی حکام کو انسانی حقوق کی پامالی سے باز رہنے کی ہدایت کی جائے، ماضی قریب میں پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا نے بنیادی اور انسانی حقوق کی واضح خلاف ورزیوں کے واقعات کو اجاگر کیا، ایسے واقعات کے تدارک اور اصلاح کے لیے انہیں وزیراعظم کے نوٹس میں لانے کی ضرورت تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 105 یا 112 کے تحت صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل پر آرٹیکل 224 (2) کے تحت 90 دن کے اندر انتخابات کرانا ضروری ہیں اور سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو صدر کو 90 دن کے اندر انتخابات کرانے کے لیے تاریخیں تجویز کرنے کا حکم دیا تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن نے 30 اپریل کو پنجاب میں عام انتخابات کے انعقاد کے اپنے اعلان پر عمل نہیں کیا اور سپریم کورٹ کے حکم کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے پنجاب اور خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلیوں کے عام انتخابات کے انعقاد کے لیے 8 اکتوبر کی تاریخ کا اعلان کیا۔

صدر عارف علوی کا کہنا تھا کہ تشویشناک بات یہ ہے کہ وزیراعظم کی جانب سے آرٹیکل 46 اور رولز آف بزنس کے تحت صدر کے ساتھ کوئی بامعنی مشاورت نہیں کی گئی۔

انہوں نے کہا تھا کہ توہین عدالت سمیت مزید پیچیدگیوں سے بچنے کے لیے وزیر اعظم وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے متعلقہ حکام کو پنجاب اور خیبرپختونخوا میں مقررہ وقت میں عام انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن کی معاونت کی ہدایت کریں۔

تبصرے (0) بند ہیں