فائل فوٹو --.
فائل فوٹو --.

افغانستان میں امن کا انحصار اس بات پر ہے کہ علاقائی طاقتیں 2014 میں امریکی فوجیوں کے انخلا کو افغانستان سے اپنی علاقائی حکمت عملی اور معاشی مفادات کے پس منظر میں کس طرح دیکھتی ہیں- پاکستان اور ایران کی نئی حکومتوں کے پالیسی بیانات سے بھی یہی بات واضح ہوتی ہے- چین کی اس خطّے میں غیرمعمولی تجارتی سرگرمیاں اور صدر آصف علی زرداری کا وسطی ایشیائی ریاستوں کا گزشتہ مہینوں میں دورہ بھی اسی مفروضہ کا تاثر دیتا ہے-

سرحدوں پر جھڑپیں اور اس کے نتیجے میں ہندوستان اور پاکستان کے ایک دوسرے پر الزامات کے تبادلے کو بھی اس خطّے میں بڑھتی ہوئی علاقائی عداوتوں کے اسی تناظر میں دیکھنا چاہئے جس کا تعلق بھی 2014 کے بعد کے افغانستان کے حالات سے ہے-

اس موجودہ صورت حال میں، پالیسی سازوں اور دانشوروں کی ساری کوششیں اس بات پرمرکوزہیں کہ وہ علاقائی ریاستوں کے مشترکہ مفادات کی نشان دہی کریں-

بادی النظر میں علاقائی ریاستیں اپنی سالمیت اور اپنے معاشی مفادات کا تحفظ یقینی بنانا چاہیں گی، انہیں ضرورت کے مطابق توانائی ملتی رہے تاکہ ان کی معیشت کا پہیہ چلتا رہے اور تجارت اور کاروبار کے راستے کھلے رہیں- ریاستوں کے درمیان شدید مقابلہ ہے کہ وہ 2014 کے بعد زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھاسکیں اور کم سے کم نقصانات-

ان ریاستوں کے درمیان مقابلے ان ملکوں کی مالی امداد کی وجہ سے ہیں جو اس علاقے سےتعلق نہیں رکھتے اور وقت گزرنے کے ساتھ افغانستان کے اندر اور افغانستان-پاکستان کے قبائلی علاقوں میں غیر ریاستی پراکسی جنگوں میں تبدیل ہو چکے ہیں-

یہ دیکھا گیا ہے کہ افغانستان میں اثرورسوخ کی مبینہ ایرانی کوششوں کی مدافعت، سعودی پیسے سے چلنے والے عسکریت پسند گروہ کر رہے ہیں جو افغانستان میں پھیلے ہوئے ہیں-

ہندوستان اورچین کی نئی تیز ہوتی ہوئی تجارتی سرگرمیاں اس علاقے کی جنگی معیشت کے پھیلاؤ کا ایک سبب سمجھی جارہی ہیں- چنانچہ پیچیدہ علاقائی سیاست کا منظر نامہ تشکیل پارہاہے جسکی وجہ ایک دوسرے سے متصادم مفادات اور مقاصد ہیں-

اس میں شک نہیں کہ امریکہ انتہائی محتاط انداز میں نتائج وعواقب کو سامنے رکھ کراپنی چالیں چل رہا ہے- تاجکستان اورازبکستان اس کوشش میں ہیں کہ افغانستان میں 2014 کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال میں ان کی ریاستوں کو کم سے کم نقصانات ہوں-

تاہم افغانستان کے تناظرمیں جو سب سے زیادہ مشکل مقابلہ نظر آتا ہے وہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ہی ہے- ایک بڑے طبقے کی رائے یہ ہے کہ افغانستان کے اندر عدم استحکام کی ایک بڑی وجہ دونوں ملکوں کے سیکورٹی اداروں کی پراکسی جنگیں ہیں جو ان کو ختم کرنے پر تیار ہوجائیں تو حالات بہترہوسکتے ہیں-

افغانستان کی پیچیدہ صورت حال کے ماہرین اور ان تمام لوگوں کی، جو ناٹو اور ایساف کی فوجوں کی 2014 میں واپسی کے واقعات کا باریک بینی سے مشاہدہ کررہے ہیں، رائے یہ ہے کہ علاقائی عدم استحکام کی اہم ترین وجہ ہی پاکستان اور ہندوستان کے جغرافیائی-ایسٹریٹیجک اورجغرافیائی-معاشی محرکات ہیں-

گزشتہ چند برسوں سے اس بات کا مشاہدہ کیا جا رہا ہے کہ پاکستان کے سیکورٹی اداروں نے افغانستان میں مواصلات، تعلیم اور صحت کے شعبوں میں ہندوستان کی بڑھتی ہوئی سرمایہ کاری پرتشویش کا اظہار کیا ہے-

پاکستان کے سیکورٹی اداروں کی نظر میں ہندوستان کی اہم انٹیلیجنس ایجنسی را ( RAW ) نے ترقیاتی منصوبوں کے بھیس میں اپنے قدم افغانستان میں جما لئے ہیں- دوسری طرف ہندوستانی حکومت نے آئی ایس آئی پر الزام لگایا ہے کہ وہ ہندوستان کے سفارتی مشن پر حملوں میں ملوث ہے-

سچائی خواہ کچھ بھی ہویہ بات تو طے ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کی حکومتوں اور سیکورٹی اداروں کے درمیان بداعتمادی کی فضا موجود ہے- کیا 2014 تک اور اس کے بعد افغانستان، ایران، چین، تاجکستان، ازبکستان اور امریکہ میں باہمی اعتماد کی فضا قائم کرنے کیلئے کوئی مشترکہ لائحہ عمل ممکن ہے خصوصا ہندوستان اور پاکستان کے حوالے سے؟

اسی ایک سوال کا جواب جنوبی اور وسطی ایشیا میں اسٹریٹجک توازن، معاشی خوشحالی اور سیاسی استحکام کا ضامن ہو سکتا ہے-

درحقیقت اس سوال کا جواب ایک وسیع تر ثقافتی رول کے مختلف پہلوؤں پر مبنی ہے:

یعنی ایک روشن مستقبل کا خواب دیکھنے والے دانشور، سیاسی قیادتیں، ماہرین تعلیم، محققین، پالیسی سازوں، سیکورٹی ادارے، علاقائی میڈیا اور سول سوسائٹی کی تنظیمیں متحد ہوکر کس طرح بد اعتمادی کا ازالہ کر سکتی ہیں اور مثبت اندازمیں ایک پیچیدہ گتھی کو سلجھا سکتی ہیں-

اس علاقے کی سیاسی قیادت کا اصل امتحان یہ ہوگا کہ یا تو یہ کامیاب ہو یا پھر اپنے اپنے سیکورٹی اداروں کی اس حرص پر غالب آجائیں جو وہ ایک دوسرے کو نقصان پہنچا کر حاصل کرنا چاہتے ہیں-

مختلف سیاسی آراء رکھنے والے دانشوراس بات پرمتفق ہیں کہ علاقائی سیکورٹی اداروں کے دباؤ میں آنے کا مطلب ہوگا افغانستان میں لڑی جانے والی پراکسی جنگوں کو بھڑکانا- اگر اس علاقے کی سیاسی قیادتیں اپنی اپنی ریاستوں کے مشترکہ مفادات کی نشان دہی کرنے کے قابل ہوجائیں اور پھر اس کیلئے کام کریں تو یہ بات بڑی اہمیت کی حامل ہوگی-

ریاستوں کے مابین موجودہ کشیدگیوں کے نتیجے میں جو نقصانات لاحق ہوتے ہیں وہ ان نتائج کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں جو مذاکرات کی میز پر مشترکہ مقاصد حاصل کرنے کی تمام تر کوششوں کے نتیجے میں حاصل ہوئے ہیں-

کم سے کم تین مشترکہ مفادات ایسے ہیں جن پر دانشور اور پالیسی ساز سرگرمی سے غوروفکر کر سکتے ہیں؛

ایک تو یہ کہ انسانی زندگی کے تحفظ پراتفاق رائے افغانستان سے وابستہ تمام طاقتوں کیلئے ایک ایسا نقطۂ اتفاق بن سکتا ہے جس کی خاطر وہ مثبت مقاصد تلاش کر سکتے ہیں باوجود اس امر کے کہ اسوقت صورت حال پیچیدہ ہے -

دوسرے یہ کہ ، بہ حیثیت ایک ریاست افغانستان کی خودمختاری اور استحکام سب کا مقصد ہونا چاہئے - کیونکہ اس کے نتیجے میں خود ان ریاستوں کی خودمختاری اور استحکام کو فروغ ملیگا -

اس کے علاوہ، افغانوں کی حوصلہ افزائی اور انکی مدد تاکہ وہ اپنے سیاسی نظام اور سماجی اداروں کے بارے میں خود فیصلہ کریں- یہ جنوبی ایشیا اور وسط ایشیا میں پائیدار امن اور ترقی کا اہم ذریعہ ثابت ہوگا-

تیسرے یہ کہ، اس علاقے کی ریاستیں (افغانستان سمیت) مختلف ثقافتوں کی حامل ہیں- اس علاقے میں ثقافتی تبادلوں کے نتیجے میں معاشی امکانات میں اضافہ ہوسکتا ہے اور ایک دوسرے کی سلامتی کی ضرورت کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے-

اس کی متبادل صورت حال یہ ہوسکتی ہے کہ حالات اتنے بدتر ہوجائیں کہ علاقائی ریاستیں ایک دوسرے پرچڑھ دوڑیں- جس کے نتائج اس علاقے کیلئے انتہائی سنگین ثابت ہونگے-


ترجمہ: علی مظفر جعفری

تبصرے (0) بند ہیں