اس سلسلے کی گزشتہ اقساط یہاں پڑھیے۔


بچپن میں کسی ایئرلائن کا اشتہار دیکھا تھا کہ جہاز کے دائیں جانب سے لوگ سوار ہورہے ہیں اور بائیں جانب سے نیچے اتر رہے ہیں۔ ایسا اشتہار شاید اس ایئرلائن کو مقبول اور مصروف ترین دکھانے کے لیے بنایا گیا تھا لیکن میں یہ سمجھتا تھا کہ واقعی ایسا ہوتا ہے۔

چونکہ میرے ابو ایئرلائن میں کام کرتے تھے اس لیے یہ غلط فہمی جلد ہی دور ہوگئی کہ جہاز میں بائیں طرف سے ہی داخل ہوتے ہیں اور نوکری شروع کرنے کے بعد یہ ادراک ہوا کہ ہنگامی حالت میں جہاں سے جگہ ملے جہاز سے بھاگ نکلنا چاہیے۔

یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ جہاز کی دائیں اور بائیں طرف کا حساب کیسے رکھا جائے۔ اگر آپ جہاز کے اندر کھڑے ہیں اور آپ کا رخ کاک پٹ کی طرف ہے تو آپ کا سیدھا ہاتھ ہی جہاز کی دائیں طرف ہے۔ یہ اصول دنیا بھر میں تمام فضائی میزبانوں کو تربیت کے اولین دنوں میں سکھایا جاتا ہے کیونکہ اس نقطے پر ہی ہنگامی حالات میں صحیح جانچ اور اس کے مطابق عمل کرنے کا دارومدار ہے۔ اگر عملے کا دائیں بائیں ہی ٹھیک نہیں تو ہنگامی حالت میں وہ صرف ’آئیں بائیں‘ ہی کرسکیں گے اور ’شائیں‘ ان سے مسافر کروالیں گے۔ لہٰذا یہ بات اس حد تک ذہن نشین ہونی چاہیے کہ ہنگامی حالات میں بھی یہ ذہن سے نکلنے نہ پائے۔

عملے کے زیادہ تر اراکین کو ہنگامی حالات میں مسافروں کو جہاز سے نکالنے کے لیے ایک ایک دروازہ تفویض کیا جاتا ہے۔ لہٰذا ہنگامی حالت میں وہ دروازہ کھولنے کے لیے عملے کے ہر رکن کو دروازے کا نام یاد رکھنا ضروری ہوتا ہے جو ہر پرواز پر مختلف ہوتا ہے۔

جیسے لاہور میں بھاٹی، یکی اور لوہاری گیٹ ہیں اور ملتان میں بوہڑ، دولت اور حرم گیٹ اسی طرح جہاز کے دروازوں کے بھی نام ہوتے ہیں۔ عموماً مسافروں کی تعداد اور ہنگامی حالات میں بر وقت اخراج کا حساب کتاب رکھ کر کسی بھی جہاز میں دروازوں کی تعداد کا تعین کیا جاتا ہے۔ چھوٹے جہازوں میں 2 سے لے کر بڑے جہازوں میں دروازوں کی یہ تعداد 16 تک بھی ہوتی ہے۔ ان دروازوں کے نام انسانوں یا چیزوں کے ناموں سے اخذ نہیں کیے جاتے۔ ان کے نام رکھنے کا الگ طریقہ کار ہے۔

چھوٹے جہازوں میں 2 جبکہ بڑے جہازوں میں دروازوں کی تعداد 16 تک بھی ہوتی ہے
چھوٹے جہازوں میں 2 جبکہ بڑے جہازوں میں دروازوں کی تعداد 16 تک بھی ہوتی ہے

جس طرح کسی کو راستہ سمجھاتے ہوئے آپ یہ کہتے ہیں کہ دائیں ہاتھ پر گلی نمبر 1 میں مڑنا ہے آپ نے اور پھر بائیں ہاتھ پر تیسرا گیٹ آئے گا۔ اسی طرح جہاز کے دائیں ہاتھ پر بنے تمام دروازوں کو 1، 2 اور 3 کے نمبر دے کر انگریزی حرف ’R‘ اور بائیں ہاتھ پر بنے دروازوں کو ’L‘ کے سابقے کے ساتھ یاد رکھا جاتا ہے۔ جہاز کے دائیں طرف کے پہلے دروازے کو ’R1‘ اور بائیں طرف کے پہلے دروازے کو ’L1‘ کہا جاتا ہے اور اسی ترتیب سے اطراف کے دروازوں کے نام ہوتے ہیں۔ اس میں جہاز کے ماڈل کی کوئی تخصیص نہیں ہوتی۔

جہاز کے بائیں دروازوں سے مسافروں اور عملے کی آمد و رفت رہتی ہے۔ اس کے علاوہ سیکیورٹی/کسٹم کا عملہ اور دیگر زمینی عملہ بشمول شعبہ انجینیئرنگ کے لوگ یہی دروازے استعمال کرتے ہیں۔ جہاز کے دائیں جانب کے دروازے سروس ڈور کہلاتے ہیں۔ مسافروں کے لیے پلاؤ اور قورمے کی دیگیں، ساہیوال کی بھینسوں کا تازہ دودھ اور سنہری بطخ کے انڈوں کے ساتھ چھوٹی مکھی کا شہد بھی انہیں جنتی دروازوں سے جہاز میں آتا ہے۔ اس کے علاوہ خصوصی مسافروں کے لیے ’ایمبولینس لفٹر‘ کی سہولت وہیل چیئر کے ساتھ انہیں دروازوں سے دی جاتی ہے۔ یہ لفٹر ایک وقت میں 2 اسٹریچر اور 4 وہیل چیئرز جہاز سے اتارنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

جہاز کی بائیں طرف کو پورٹ سائیڈ اور دائیں جانب کو اسٹار بورڈ سائیڈ کہا جاتا ہے۔ تمام مسافر بردار جہاز لیفٹ ہینڈ ڈرائیو ہوتے ہیں یعنی جہاز کا کپتان بائیں جانب بیٹھتا ہے۔ یہ اصول اس وقت سے وضع کیا جاچکا ہے جب انجن کے نام پر جہاز کی ناک میں ’پرواز فین‘ گھسا کر اسے اڑایا جاتا تھا۔ جب سڑک پر گاڑی چلانے کی بات آتی ہے تو، موٹر گاڑیوں کے ڈرائیور بائیں یا دائیں طرف بیٹھتے ہیں۔ یہ اس ملک پر منحصر ہے جس میں وہ گاڑیاں چلانے کے لیے تیار کی جاتی ہیں۔ اس طرح کپتان کہاں بیٹھے گا اس حوالے سے یکسانیت کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ اصول بنایا گیا اس لیے جہاز کے کپتان ہمیشہ خود کو کاک پٹ کے بائیں جانب پاتے ہیں۔

یکسانیت کو مدنظر رکھتے ہوئے دنیا بھر میں کپتان کاک پٹ کی بائیں جانب بیٹھتے ہیں
یکسانیت کو مدنظر رکھتے ہوئے دنیا بھر میں کپتان کاک پٹ کی بائیں جانب بیٹھتے ہیں

یہ ایک عام سی بات ہے کہ جو کام متواتر کیا جائے اس کی عادت ہوجاتی ہے اور اگر اس کام کے عمل میں کچھ رد و بدل ہو تو خرابی کا اندیشہ رہتا ہے۔ کئی سال پاکستان میں گاڑی چلاتے شخص کو اگر امریکا میں گاڑی چلانی پڑجائے تو یقیناً شروعات میں اسے کافی مشکل ہوگی اور حادثے کا خطرہ رہے گا۔ فضا میں یہ بات زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتی ہے اس لیے تمام جہازوں کے کپتان ہمیشہ بائیں جانب رہتے ہیں تاکہ تمام کنٹرول ایک طرف رہے اور بار بار دائیں یا بائیں کا جھنجھٹ ہی نہ رہے۔

ہنگامی حالت میں جہاز سے نکلنے کے لیے مخصوص کھڑکیاں بھی ہوتی ہیں جو زیادہ تر جہاز کے اطراف میں درمیانی حصے میں موجود ہوتی ہیں۔ ان کو ’Over Wing Exits‘ کہا جاتا ہے۔ ان کو ’OWE‘ اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ یہ جہاز کی باڈی میں پروں کے اوپر والے حصے میں موجود ہوتی ہیں۔ ہنگامی حالت میں جہاز سے باہر نکلنے کے لیے یہ اضافی راستہ ہوتا ہے۔ کھڑکی کے مخصوص حصے کو جہاز کے فریم سے نکال کر راستہ بنایا جاتا ہے جہاں سے مسافروں کو نکالا جاتا ہے۔

ہنگامی حالات میں کھڑکی سے جہاز سے باہر نکلنے کا راستہ بنایا جاتا ہے
ہنگامی حالات میں کھڑکی سے جہاز سے باہر نکلنے کا راستہ بنایا جاتا ہے

تربیت کے دوران عملے کو کچھ چنگھاڑتے جملے (کمانڈز) سکھائے جاتے ہیں کہ ہنگامی حالت میں جہاز سے نکلنے کے لیے مسافروں کو کس طرح پکارنا ہے۔ مثلاً،

’سیٹ بیلٹ کھولیں‘، ’اس طرف آئیں‘، ’سامان چھوڑ دیں‘۔ ان سب کے ساتھ ’تینوں خدا دا واسطہ ای چوہدری‘، ’توانوں اک واری کیا نکلو چھیتی‘، ’جہاز توں پراں نس جاؤ‘ کہا تو نہیں جاسکتا لیکن افراتفری میں کچھ بعید نہیں کہ لوگ پریشانی میں مادری زبان کا استعمال زیادہ کرنے لگ جاتے ہیں۔

اس کے علاوہ جہاز کی کھڑکی سے نکلنے کے لیے ’Leg Body Leg‘ کی کمانڈ دی جاتی ہے یعنی پہلے ٹانگ پھر جسم اور اس کے بعد دوسری ٹانگ کیونکہ نکلنے کی جگہ تنگ ہوتی ہے۔ لیکن اگر کسی مسافر کا پیٹ زیادہ نکلا ہوا ہو تو یہ کمانڈ ’Leg Belly Leg‘ میں تبدیل کرنے کی بالکل اجازت نہیں ہوتی۔

پس ثابت ہوا کہ زندگی میں معدہ کم اور دماغ زیادہ استعمال کرنا چاہیے تاکہ تنگ جگہوں اور مشکل صورتحال سے کامیابی کے ساتھ نکلا جاسکے۔

تبصرے (0) بند ہیں